Thursday 4 July 2019

ٹی وی چینل پہ فحاشی

اگرکوئی آپ کو بتائے کہ۔۔۔
مین نے آپ کے بیٹے کو محلے کے لفنگے لڑکوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے
اگر کوئی آپ کو بتائے کہ آپ کی بیٹی کی گیدرنگ اچھی نہیں ہے
تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟
فکر مندی ،پریشانی رات کی نیند غائب ،کیا کرون ؟کیسے سمجھاون؟کیسے بچاوں؟
تو جناب یہ لیجئیے یہ پڑھئے دنیا کے گندے ترین خیالات کو بھاری فیس لے کر پیشہ ورانہ مہارت سے پُر کشش ڈراموں میں ڈھال کر مہنگے ترین کیمرہ مینوں اور کروڑوں کے کیمروں سے شوٹ کر کے ٹی وی کے پرائم ٹائم پر وقت خرید کر پیش کر کے آپ کے بیٹے بیٹی بیوی شوہر کو عین گھر کے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں بگاڑا جا رہا ہے اور آپ لگے رہیں سیاسی شو بازی دیکھنے میں  جب تک وہاں کچھ ہو گا یہاں بچانے کو کچھ بھی نہ رہے گا۔۔۔!
گندے نالے کا بند ٹوٹ چکا بدبودار پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہمارے استاد کے بقول جو گھر میں ٹی وی رکھتا ہے وہ چاہتا ہے اس کی اولاد بگڑے اور جو اوپن کیبل رکھتا ہے وہ ۔۔۔۔۔!
مین دہرانے سے قاصر ہون ۔۔۔!
خبریں سننے اور بچون پر بھروسہ کرنے وغیرہ وغیرہ جیسے دلائل والے دوستوں سے معذرت میں اپنی ںکھوں سے دینی گھر انے برباد ہوتے دیکھ چکا ہوں ۔۔۔
اب آئیے صرف ایک موضوع پر خاندان کے نظام پر پڑتی ضربین دیکھ لیجئیے۔۔۔

“خانہ بدوش”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

                    ہم (HUM) چینل“*  کے ایک ڈرامے *”پاکیزہ“* میں *طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔*

② *اے پلس APLUS* کے ڈرامے *”خدا_دیکھ_رہا_ہے“* میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور *مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔*

③ *اے آر وائی ARY* کے ڈرامے *”انابیہ“* میں *شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔*

④ ہم *HUM چینل* کے ایک اور ڈرامے *”ذرا_یاد_کر“* میں *طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔* اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔

*⑤ جیو GEO* کے ایک ڈرامے *”جورو_کے_غلام“* میں *ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔*

*⑥ ہم HUM چینل* کے ایک تیسرے ڈرامے *”من_مائل“* میں *لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے* جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔

*⑦ ہم HUM چینل* ہی کے چوتھے ڈرامے *”تمھارے_سوا“* میں میں *لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے۔ اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔*

*📣 📺 سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی۵۰ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ھے.*

*❌❌ایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔*

*💡⁉️کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟*

*💡⁉️کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائز دے؟*

 *💡⁉️حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حدود الله اور شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی⁉️ اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں؟*

*💡⁉️کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے والا ۔ روکنے والا نہیں ہے*
*💃ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﮧ ﮨﮯ...*
📌ﺻﺎﻑ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ *ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﻗﺎعدﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﻢ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ..*
📌 *ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺭ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮑﺮ..*
📌 *ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ...*
📌 *ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﺎ...*

📌 *ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮭﻨﺴﺎﻧﺎ...*
*✋✋ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺟﻨﺲ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺑﻦ ﺭﮬﮯ ﮨﯿﮟ...*

*🎥 ﺍﻥ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺫﮨﻨﯽ ﻧﺸﻮﻧﻤﺎ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻧﮑﻠﯿﮟ ﮔﮯ . ﺍﻥ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﻮ ﺍﺏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ . ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻃﺒﻘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮭﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﭘﮧ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﻮﯾﺸﻨﺎﮎ ﮬﮯ .*

 *💡🔍ﮨﻤﯿﮟ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺩکھائی ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﮕﺮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﻮﺭﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ..*
*ﮐﻞ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮭﺎﺅ ..
ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻮ ..*
*✅ ﺳﻮﭼﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ...*
*✅ چھوڑ دیں یہ ڈرامے دیکھنا...*

*📺 آپ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے ان کو ریٹنگ ملتی ھے اور وہ مزید ڈرامے بناتے جا رہے ھیں...*

*✋یاد رکھئے کہ اس "ثوابِ دارین" میں آپ کا حصہ بھی ھوگا.*

Sunday 16 June 2019

غیرت_مند_فقیر

#غداری کو روکنے کیلئے نورالدین زنگی کی بیوہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا اتحاد نورالدین زنگی کے بیٹے کے خلاف  زبردست تحریر 
#غیرت_مند_فقیر #صلاح_الدین_ایوبی #نورالدین_زنگی  

سلطان نور الدین زنگی (رح) کی وفات کے بعد جب ان کا نو عمر بیٹا ملک الصالح مسند خلافت پر بیٹھا تو صلیبیوں اور عیاش مسلمان امرا نے اس کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے صلاح الدین کے خلاف کر دیا۔ دوستی اور امن کا ڈرامہ کھیلا گیا جس کے تحت سلطان نور الدین زنگی کی قید میں آئے اہم عیسائی رہنماؤں کو بغیر کسی مطالبے کے ملک الصالح نے رہا کر دیا۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے نور الدین زنگی کی بیوہ نے اپنے ہی بیٹے کے خلاف مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو خط لکھا اور دمشق کی خلافت پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اس عورت نے ہی دمشق کی عورتوں کی ذہن سازی کی تاکہ جب ایوبی دمشق کے دروازہ پر آئے تو کم سے کم شہریوں کی طرف سے مزاحمت نا ہو۔ 
خیر دمشق سلطان ایوبی (رح) کے قبضہ میں چلا گیا۔ زنگی مرحوم کی زندگی میں سلطان ایوبی کو ان کا بڑا آسرا تھا۔ کہ دونوں سلطانوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ بیت المقدس کی پنجہ صلیب سے آزادی۔ لیکن اب بیت المقدس بہت دور نظر آنے لگا تھا۔ جب دمشق فتح ہوا تو عیسائی دوست امرا اور ملک الصالح حلب کی طرف فرار ہو گئے۔  یہ وہی حلب ہے جسے دنیا آج allepo کے نام سے جانتی ہے اور پچھلے سال مغربی قوتوں کی بمباری کے بعد شہر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ ملک الصالح نے حلب میں صلیبیوں کی مدد سے پراپوگینڈہ کر کے شہر اور آس پاس کے علاقوں سے ایوبی کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کر لی۔ اب ایوبی کو صلیبیوں سے پہلے اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنا تھا۔ جو بیت المقدس کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے تھے۔ ایوبی کے خلاف تین بڑی مسلمان فوجیں لڑنے کو تیار تھیں۔ پہلی فوج حلب کی، دوسری صلاح الدین ایوبی کے کزن سیف اللَّہ کی اور تیسری فوج ہَرن کے قلعہ دار کی تھی۔ 
وقت گزرا، ایوبی نے کمال مہارت سے سردیوں میں حلب کا محاصرہ کر لیا۔ حلب میں خبر تب پہنچی جب ایوبی بالکل ان کے سر آن پہنچا تھا۔ عیسائی بادشاہ رینالڈ بھاری معاوضہ لے کر ملک الصالح کی مدد کو عیسائی فوج لے کر نکلا۔ ادھر حلب شہر کے اندر اعلان کروائے گئے کہ ایوبی نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے۔ یوں حلب کے مسلمان بھی ایوبی کے خلاف خوب جگر سے لڑے۔ جب ایوبی کو عیسائی فوج کی پیش قدمی کا علم ہوا تو مجبورا اسے شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایوبی اپنے کسی conquest میں ناکامیاب لوٹا تھا۔ ایوبی کا ارادہ تھا کہ راستہ بدل کر عیسائی فوج کے عقب میں جا کر ان پر حملہ کرے گا۔ لیکن جب رینالڈ کو محاصرے کے اختتام کی خبر ملی تو وہ بھی راستہ بدل کر ملک الصالح سے عہد شکنی کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔ 
اب تینوں مسلمان فوجوں نے مل کر ایوبی پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ ایوبی نے پھر بہترین جنگی چال چلی اور ان فوجوں کو حلب سے کچھ دور ایک پہاڑی سلسلہ میں لا کر لڑانے کا فیصلہ کیا۔ ایوبی نے اپنی فوج کو اس پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ کے باہر خیمہ زن کر دیا۔ جب حملہ ہوا تو ایوبی کی فوج حملہ آور فوجوں کو پھنسا کر پہاڑی درے میں لے آئی جہاں دائیں بائیں کی چوٹیوں سے ایوبی کے کمانڈوز نے ان پر آگ کی ہانڈیاں برسائیں اور فتح اپنے نام کی۔ حملہ آور فوجوں میں سے حلب کی ایک ریزرو فوج نے پہاڑی سلسلہ کے دائیں جانب سے عین اس وقت حملہ کر دیا جب پہلے سے حملہ آور فوج پہاڑی درے میں آتشی تیروں اور ہانڈیوں کی زد میں تھی۔ ایوبی نے جنگ کی پلاننگ کے وقت اس طرف سے حملہ کے پہلو پر غور تو کیا تھا لیکن فوج کی کمی کے باعث وہ اس کے بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ یہ حملہ جیتی ہوئی بازی کو شکست میں بدل دینے کے لیے کافی تھا۔ لیکن عین اسی وقت 500 گھڑ سواروں کا دستہ کہیں سے مدد کو آن پہنچا۔ جس میں 400 خواتین تھیں اور 100 مرد۔ ایوبی جو کہ قوم کی بیٹیوں کو میدان جنگ میں لڑانا معیوب سمجھتا تھا اسنے انہیں جب واپس پلٹنے کو کہا تھا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ایک مرد نے ایوبی کو ایک خط دیا جو زنگی کی بیوہ کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میرے بھائی ایوبی میں جانتی ہوں کہ تم بیٹیوں کو میدان جنگ میں لے جانے کے حق میں نہیں لیکن اگر تم نے انہیں واپس بھیجا تو دمشق کے مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ ان کے جذبہ جہاد کی قدر کریں۔ 
یوں ایوبی نے انہیں ساتھ لڑنے کی اجازت دی اور دائیں جانب سے حملہ آور حلب کی فوج پر ان 400 خواتین مجاہد بہنوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور فاتح ٹھہرا۔ اسی جنگ کے بعد ایوبی نے اپنے کزن سیف اللَّہ جو کہ میدان جنگ سے فرار ہو چکا تھا، کو خط لکھا جس میں اس نے یہ جملہ بھی لکھا ''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''۔ وجہ یہ تھی کہ فتح کے بعد سیف اللَّہ اور ہرن کے قعلہ داروں کے خیموں سے سینکڑوں رقاصائیں اور خوبصورت پرندے ملے تھے۔ 
امت کے غداروں سے لڑنے کے بعد ایوبی نے فلسطین کا رخ کیا اور جناب عمر (رض) کے بعد واحد امیر بنا جو بیت المقدس کا فاتح ٹھہرا۔ آج بھی بیت المقدس کسی ایوبی کی راہ تکتا ہو گا۔ لیکن اب امت

میں ایک بھی ایوبی نہیں۔ جبکہ ملک الصالح اور سیف اللَّہ جیسوں کی بہتات ہے۔ مسلمان نوجوان عورت، شراب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ کہیں بلند عمارتوں کا مقابلہ ہے تو کہیں محلوں میں کھڑی گاڑیوں کی تعداد کا۔ شاید ایوبی کا پیغام آج کے مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ

''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''

مفتی منیب الرحمن

حدیث دل
میں 19سال کی عمر میں 1964ء میں کراچی آیا‘ پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا ۔ اب یہی میرا شہر ہے ‘ تمام شعوری زندگی اسی شہر میں گزری۔مزاج میں ٹھیرائو ہے‘تلوُّن نہیں ہے ‘دسمبر1965ء میں فیڈرل بی ایریا کی جامع مسجد اقصیٰ سے وابستگی ہوئی اور آج بھی قائم ہے ۔ 1973ء میںعلامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری ‘ علامہ جمیل احمد نعیمی ودیگر اکابر علمائے اہلسنت کی رفاقت میں دارالعلوم نعیمیہ قائم کیا اور آج بھی اُسی سے وابستہ ہوں ۔اندازِ گفتار بھی بے ہنگم اوربے تکانہیں ہے‘ نہ ایسا کرنا میرے بس میں ہے۔ میں اپنی قصیدہ خوانی نہیں کر رہا‘بلکہ ایک حقیقت بتا رہا ہوں‘ نماز بھی ٹھیرائو کے ساتھ پڑھتا اور پڑھاتا ہوں ۔ 
میں نے 1961ء میں گورنمنٹ ہائی سکول اوگی سے میٹرک کیا‘ اُس دور میں وہاں آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ ہم نے پہاڑی علاقے میں پرائمری سے میٹرک تک پانچ میل روزانہ پیدل چل کرپڑھا‘ میٹرک کرنے تک بجلی نہیں دیکھی تھی‘ صرف فزکس کی کتابوں میں اُس کی بابت پڑھتے تھے ‘مشاہدہ نہیں تھا۔خاندانی پسِ منظر الحمد للہ علمی ہے ‘ آج بھی ہمارے خاندان میں اعلیٰ تعلیم کا تناسب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قابلِ رشک ہے ۔ سکول کے ساتھ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ‘ کچھ اسباق اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے عہد کے بہت بڑے عالم دادا جان سے پڑھے ‘ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔چونکہ اچھی بات کو سیکھنامزاج میں تھا ‘ اس لیے کراچی میں استاذِ مکرّم علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری مرحوم کی رفاقت میں تلفظ کی اصلاح ہوئی اور اچھے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر لکھنے کا سلیقہ پیدا ہوا‘ اب بھی اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے‘ غالب نے کہا ہے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے 
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا 
ضمناً بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم مسلّمہ طور پر ایک انتہائی قابل اور ممتاز سکالر تھے ‘ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر تھے ‘ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہیں وزیرِ مذہبی امور بنایا ۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی طرف سے نمائندگی کے سبب مختلف اجلاسوں میں اُن سے واسطہ پڑا ‘ 2001ء میں مجھے بتائے اور اعتماد میں لیے بغیر انہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کا چیئرمین بنادیا‘ اس کا علم مجھے نوٹیفکیشن کے بعد ہوا‘ اُن کی معیت میں چند علما کے ہمراہ قزاقستان کا تاریخی دورہ بھی کرنے کا موقع ملا ‘اس دورے میں چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرُمچی میں ایک دن قیام کا موقع ملا ‘وہاں کا ایک سرکاری مذہبی تعلیمی ادارہ بھی دیکھا ‘ علامہ اقبال نے کہاہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
کاشغر کا علاقہ یہی ہے‘ یہاں ترکی النسل ایغور مسلمان رہتے ہیں‘ مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو نمازیوں کے لیے پگڑیاں ‘ تسبیحیں اور ٹوپیاں بھی رکھی ہوئی تھیں ۔ترکی میں تو مصطفی کمال اتاترک نے ازراہِ عِناد ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن میں ڈھال دیا‘ حروف والفاظ کی ہیئت اور تلفظ ایسا رکھا کہ عربی ‘فارسی وانگریزی دان کے لیے صحیح تلفظ مشکل ہوگیا ‘ اصل مقصد اسلامی علامات اور ماضی سے رشتہ توڑنا تھا‘ محمد اور احمد کا تلفظ بالترتیب مَہْمَتْ اور اَہْمَتْ ہوگیا‘وغیرہ۔ اُرمچی میں بازار میں چکر لگاتے ہوئے دکانوں کے بورڈدیکھے ‘ وہ عربی فارسی رسم الخط میں تھے اوربآسانی سمجھ میں آرہے تھے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر آج ترکی کو واپس اپنے اصل رسم الخط کی طرف لایا جائے تو اُن کے اور ہمارے درمیان تفاہم میں دشواری نہیں ہوگی اور ہمیں ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔یہ ایک المیہ ہے کہ جدید انگلش میڈیم سکولوں کی وجہ سے ہماری نئی نسل اُردو سے دور ہوتی جارہی ہے ‘اگر یہی چلن رہا تو بیس پچیس سال بعد اردو اخبارات اور کتابیں پڑھنا اور سمجھنا نئی نسل کے لیے دشوار ہوجائے گا۔ اسی لیے میں نے نیشنل ٹاسک فورس اور نیشنل کریکولم کونسل کے اجلاسوں میں کہا تھا کہ اَشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ''پاکستانی ساختہ‘‘ نسل تیار نہیں ہورہی ‘یہ چوں چوں کا مُرَبَّہ اور اس محاورے کا مصداق ہے: ''کوا چلاہَنس کی چال ‘اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔
6ستمبر1965ء کو جب ریڈیو پاکستان سے اعلان ہواکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے ‘تو ایک منٹ کے توقُّف کے بغیر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں تعلیم معطل کر کے آیتِ کریمہ پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ‘ جس میں تمام اساتذہ کرام اور طلبہ شامل تھے ‘ ادارے کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری نے کہا: ہندوستان نے ہمارے قَلب (لاہور)پر حملہ کیا ہے۔ مسجدوں میں گڑگڑاکر دعائیں مانگی جارہی تھیں ‘ فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جارہی تھی‘ لوگ حکومت کے ساتھ تَن مَن دَھن سے تعاون کر رہے تھے ‘ نہ کوئی ہلچل مچی ‘ نہ کہرام بپا ہوا ‘ نہ لوگ کراچی سے بستر بوریا اٹھاکر اپنے علاقوں کو روانہ ہوئے‘ نہ مہنگائی کا سیلاب آیا ‘ نہ اَشیائے صَرف کی قلت ہوئی ‘نہ راشن کے لیے لائنیں لگیں‘الغرض پورا نظامِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہا ۔ راتوں کو مکمل بلیک آئوٹ ہوتا اور دن میں زندگی معمول کے مطابق جاری وساری رہتی ۔ اُس وقت پاکستانی ایک متحد ‘مضبوط اور مُستَحکم قوم کا منظر پیش کر رہے تھے ‘ہر ایک نے اسے اپنے دل وجان پر حملہ محسوس کیا ‘ اُسی موقع پر رئیس امروہوی نے جنگی نغمہ لکھا تھا:
خطّۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
شہریوں کو ‘ غازیوں کو ‘ شہسواروں کو سلام
رات کو سب لوگ ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھ جاتے ‘ شکیل احمد مرحوم اتنے جوش وخروش سے خبریں پڑھتے ‘ جیسے وہ دشمن کے مقابل مورچے میں بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہوں۔ اس وقت پوری قوم کا ایک ایک فرد اس جنگ کا حصہ تھا‘ وطن کے لیے مر مٹنے کو تیار تھا۔ پھر ہم نے 1971ء کی جنگ دیکھی ‘وہی ملک وقوم ‘ لیکن 1965ء والا والہانہ جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔ کراچی ڈاکیارڈ میں ہفتہ بھرآگ کے شعلے اور دھویں کے مرغُولے بلند ہورہے تھے ‘ لیکن قوم میں ایک لا تعلقی سی تھی۔ 16دسمبر 1971ء کا المیہ قوم نے خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا‘ کئی لوگوں نے بعض مناظر دیکھ کر اپنے ریڈیو اور ٹی وی سیٹ توڑ دیے‘ بڑے جلوس اور ریلیاں بھی نہیں نکلیں ‘ ایک بے حسی ‘پژمردگی اور اضمحلال طاری رہا۔
اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی غیر متنازع نہیں رہے ‘ لیکن اُن کے کریڈٹ پر آج بھی بعض نمایاں کارنامے موجود ہیں ‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کی تشکیل‘ جس پر نواب خیر بخش مری کے علاوہ اُس وقت کے تمام ارکانِ اسمبلی کے دستخط ثبت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قوم کو پھرحوصلہ دیا اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی شروعات کیں‘ جسے بعد میں تمام حکومتوں نے آگے بڑھایااور بالآخر1998ء میں پاکستان چھ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ نائن الیون کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فوجیوں کو ہدایت تھی کہ یونیفارم پہن کر کنٹوٹمنٹ سے باہر نہ آئیں ۔ پھر 2012ء سے 2018ء کے درمیان جب آپریشن راہِ نجات ‘ضربِ عَضب اورردُّ الفساد شروع ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں ایک بار پھر فوج کی محبت جاگ اٹھی ‘فوج ملک کے لیے قربانیاں دے رہی تھی اور قوم اس کی قدر دان تھی۔غلطی کس نے کی ‘ کہاںکی ‘ حکمتِ عملی اور تدبیر وفراست کا فقدان کہاں تھا ‘ قوم ان تفصیلات میں جائے بغیر فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی ‘ یعنی ایک بار پھر وحدت کی تصویر نظر آنے لگی ۔ یہ سارا پسِ منظر میں نے اس لیے لکھا ہے کہ گزشتہ عشروں میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ‘چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر سب لوگ مجھے دعا کے لیے متوجہ کرتے اور ہم پاکستان کی سالمیت اور فوج کے حق میں دل وجان سے دعائیں مانگتے۔
میں رمضان مبارک میں اپنی مسجد سے متصل مکان میں آجاتا ہوں‘ یہاں میں دسمبر1965ء سے 2002ء تک رہا‘ بعد میں اپنے مکان میں منتقل ہوگیا ۔چونکہ رمضان مبارک میں مجھے صبح وشام درس دینا ہوتاہے‘ لوگ مسائل کے لیے رجوع کرتے ہیں‘ اس لیے میں وہاں منتقل ہوجاتا ہوں‘ یہاں تیسری نسل چل رہی ہے جن کے درمیان میں نے اپنی زندگی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ گزارا ہے ‘ان کے ساتھ ہمیشہ محبت واحترام کا رشتہ قائم رہااور میں نے اُن میں دین اور اہلِ دین کے لیے احترام پایا ‘میرا ادارہ اور مسجد فیڈرل بی ایریا میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ہیں ۔ کئی جذباتی دور گزرے‘ میں اپنے مزاج کے مطابق دین کے حوالے سے حالات کی بابت کلمۂ حق بیان کرتا رہا اور انتہائی جذباتیت کے ماحول میں بھی نوجوانوں سمیت لوگ مجھے برداشت کرتے رہے ۔
سوجب میں ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کوعملی تجربے کی روشنی میں بتاتا ہوںکہ الطاف حسین کا دور اہلِ کراچی کے لیے ایک ابتلا کا دور تھا ‘بہت سے لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے ‘اپنے پرائے کی تمیز اٹھ گئی ‘بہت سے ناگفتہ بہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ‘ بے انتہا جانی نقصان ہوا ‘لسانی عصبیت اپنے جوبن پر تھی‘ اس کے باوجود بحیثیتِ مجموعی اہلِ کراچی کو میں نے ہمیشہ دین کے قریب اور اہلِ دین سے محبت کرنے والا پایا۔لبرل حضرات تحریکِ پاکستان کی جو بھی تعبیریں بیان کریں ‘ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں ‘ان میں مشرقی پنجاب کے مہاجرین بھی شامل ہیں‘ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ تحریکِ پاکستان اسلام کے نام پر بپا ہوئی تھی ‘ لوگوں نے اسلام کے نام پر ہی اس کی حمایت کی ‘اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان سے کبھی مستفید نہ ہوسکے‘ اُن کا بھی اہلِ پاکستان پر احسان ہے ‘ سو اہلِ کراچی کی اسلام اورپاکستان کے ساتھ محبت شک وشبہے سے بالاتر ہے ‘ انہیں اسی نظر سے دیکھا جائے۔ 
میں رمضان میں جوارِ مسجد میں رہنے کی وجہ سے ٹیلی ویژن بالکل نہیں دیکھتا‘ بس صرف صبح کے اخبارات میں سرسری خبریں دیکھ لیتا ہوں ۔ جب میں نے داتادربار لاہور ‘کوئٹہ اور گوادر کے واقعات کے بارے میں صبح کے اخبار میں پڑھاتو مجھے حیرت ہوئی کہ شام کو نہ مسجد میں کسی نے ان کا ذکر کیا‘ نہ دعا کے لیے کہا۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی مجھے گھائل کرگئی کہ آخر دلوں کی یہ کیفیت اوراچانک کایا پلٹ کیسے ہوگئی ۔ ہمارے نظام میں کہیں کوئی بے تدبیری تو نہیں ہوگئی‘ بس یہی سوچ مجھے پریشان کر رہی ہے‘ سوچا اپنے قارئین کو اس الجھن میں شریک کرلوں ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب