Thursday 4 July 2019

ٹی وی چینل پہ فحاشی

اگرکوئی آپ کو بتائے کہ۔۔۔
مین نے آپ کے بیٹے کو محلے کے لفنگے لڑکوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے
اگر کوئی آپ کو بتائے کہ آپ کی بیٹی کی گیدرنگ اچھی نہیں ہے
تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟
فکر مندی ،پریشانی رات کی نیند غائب ،کیا کرون ؟کیسے سمجھاون؟کیسے بچاوں؟
تو جناب یہ لیجئیے یہ پڑھئے دنیا کے گندے ترین خیالات کو بھاری فیس لے کر پیشہ ورانہ مہارت سے پُر کشش ڈراموں میں ڈھال کر مہنگے ترین کیمرہ مینوں اور کروڑوں کے کیمروں سے شوٹ کر کے ٹی وی کے پرائم ٹائم پر وقت خرید کر پیش کر کے آپ کے بیٹے بیٹی بیوی شوہر کو عین گھر کے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں بگاڑا جا رہا ہے اور آپ لگے رہیں سیاسی شو بازی دیکھنے میں  جب تک وہاں کچھ ہو گا یہاں بچانے کو کچھ بھی نہ رہے گا۔۔۔!
گندے نالے کا بند ٹوٹ چکا بدبودار پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہمارے استاد کے بقول جو گھر میں ٹی وی رکھتا ہے وہ چاہتا ہے اس کی اولاد بگڑے اور جو اوپن کیبل رکھتا ہے وہ ۔۔۔۔۔!
مین دہرانے سے قاصر ہون ۔۔۔!
خبریں سننے اور بچون پر بھروسہ کرنے وغیرہ وغیرہ جیسے دلائل والے دوستوں سے معذرت میں اپنی ںکھوں سے دینی گھر انے برباد ہوتے دیکھ چکا ہوں ۔۔۔
اب آئیے صرف ایک موضوع پر خاندان کے نظام پر پڑتی ضربین دیکھ لیجئیے۔۔۔

“خانہ بدوش”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

                    ہم (HUM) چینل“*  کے ایک ڈرامے *”پاکیزہ“* میں *طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔*

② *اے پلس APLUS* کے ڈرامے *”خدا_دیکھ_رہا_ہے“* میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور *مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔*

③ *اے آر وائی ARY* کے ڈرامے *”انابیہ“* میں *شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔*

④ ہم *HUM چینل* کے ایک اور ڈرامے *”ذرا_یاد_کر“* میں *طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔* اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔

*⑤ جیو GEO* کے ایک ڈرامے *”جورو_کے_غلام“* میں *ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔*

*⑥ ہم HUM چینل* کے ایک تیسرے ڈرامے *”من_مائل“* میں *لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے* جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔

*⑦ ہم HUM چینل* ہی کے چوتھے ڈرامے *”تمھارے_سوا“* میں میں *لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے۔ اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔*

*📣 📺 سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی۵۰ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ھے.*

*❌❌ایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔*

*💡⁉️کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟*

*💡⁉️کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائز دے؟*

 *💡⁉️حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حدود الله اور شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی⁉️ اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں؟*

*💡⁉️کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے والا ۔ روکنے والا نہیں ہے*
*💃ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﮧ ﮨﮯ...*
📌ﺻﺎﻑ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ *ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﻗﺎعدﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﻢ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ..*
📌 *ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺭ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮑﺮ..*
📌 *ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ...*
📌 *ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﺎ...*

📌 *ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮭﻨﺴﺎﻧﺎ...*
*✋✋ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺟﻨﺲ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺑﻦ ﺭﮬﮯ ﮨﯿﮟ...*

*🎥 ﺍﻥ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺫﮨﻨﯽ ﻧﺸﻮﻧﻤﺎ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻧﮑﻠﯿﮟ ﮔﮯ . ﺍﻥ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﻮ ﺍﺏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ . ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻃﺒﻘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮭﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﭘﮧ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﻮﯾﺸﻨﺎﮎ ﮬﮯ .*

 *💡🔍ﮨﻤﯿﮟ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺩکھائی ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﮕﺮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﻮﺭﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ..*
*ﮐﻞ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮭﺎﺅ ..
ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻮ ..*
*✅ ﺳﻮﭼﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...*
*✅ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ...*
*✅ چھوڑ دیں یہ ڈرامے دیکھنا...*

*📺 آپ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے ان کو ریٹنگ ملتی ھے اور وہ مزید ڈرامے بناتے جا رہے ھیں...*

*✋یاد رکھئے کہ اس "ثوابِ دارین" میں آپ کا حصہ بھی ھوگا.*

Sunday 16 June 2019

غیرت_مند_فقیر

#غداری کو روکنے کیلئے نورالدین زنگی کی بیوہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا اتحاد نورالدین زنگی کے بیٹے کے خلاف  زبردست تحریر 
#غیرت_مند_فقیر #صلاح_الدین_ایوبی #نورالدین_زنگی  

سلطان نور الدین زنگی (رح) کی وفات کے بعد جب ان کا نو عمر بیٹا ملک الصالح مسند خلافت پر بیٹھا تو صلیبیوں اور عیاش مسلمان امرا نے اس کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے صلاح الدین کے خلاف کر دیا۔ دوستی اور امن کا ڈرامہ کھیلا گیا جس کے تحت سلطان نور الدین زنگی کی قید میں آئے اہم عیسائی رہنماؤں کو بغیر کسی مطالبے کے ملک الصالح نے رہا کر دیا۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے نور الدین زنگی کی بیوہ نے اپنے ہی بیٹے کے خلاف مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو خط لکھا اور دمشق کی خلافت پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اس عورت نے ہی دمشق کی عورتوں کی ذہن سازی کی تاکہ جب ایوبی دمشق کے دروازہ پر آئے تو کم سے کم شہریوں کی طرف سے مزاحمت نا ہو۔ 
خیر دمشق سلطان ایوبی (رح) کے قبضہ میں چلا گیا۔ زنگی مرحوم کی زندگی میں سلطان ایوبی کو ان کا بڑا آسرا تھا۔ کہ دونوں سلطانوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ بیت المقدس کی پنجہ صلیب سے آزادی۔ لیکن اب بیت المقدس بہت دور نظر آنے لگا تھا۔ جب دمشق فتح ہوا تو عیسائی دوست امرا اور ملک الصالح حلب کی طرف فرار ہو گئے۔  یہ وہی حلب ہے جسے دنیا آج allepo کے نام سے جانتی ہے اور پچھلے سال مغربی قوتوں کی بمباری کے بعد شہر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ ملک الصالح نے حلب میں صلیبیوں کی مدد سے پراپوگینڈہ کر کے شہر اور آس پاس کے علاقوں سے ایوبی کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کر لی۔ اب ایوبی کو صلیبیوں سے پہلے اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنا تھا۔ جو بیت المقدس کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے تھے۔ ایوبی کے خلاف تین بڑی مسلمان فوجیں لڑنے کو تیار تھیں۔ پہلی فوج حلب کی، دوسری صلاح الدین ایوبی کے کزن سیف اللَّہ کی اور تیسری فوج ہَرن کے قلعہ دار کی تھی۔ 
وقت گزرا، ایوبی نے کمال مہارت سے سردیوں میں حلب کا محاصرہ کر لیا۔ حلب میں خبر تب پہنچی جب ایوبی بالکل ان کے سر آن پہنچا تھا۔ عیسائی بادشاہ رینالڈ بھاری معاوضہ لے کر ملک الصالح کی مدد کو عیسائی فوج لے کر نکلا۔ ادھر حلب شہر کے اندر اعلان کروائے گئے کہ ایوبی نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے۔ یوں حلب کے مسلمان بھی ایوبی کے خلاف خوب جگر سے لڑے۔ جب ایوبی کو عیسائی فوج کی پیش قدمی کا علم ہوا تو مجبورا اسے شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایوبی اپنے کسی conquest میں ناکامیاب لوٹا تھا۔ ایوبی کا ارادہ تھا کہ راستہ بدل کر عیسائی فوج کے عقب میں جا کر ان پر حملہ کرے گا۔ لیکن جب رینالڈ کو محاصرے کے اختتام کی خبر ملی تو وہ بھی راستہ بدل کر ملک الصالح سے عہد شکنی کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔ 
اب تینوں مسلمان فوجوں نے مل کر ایوبی پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ ایوبی نے پھر بہترین جنگی چال چلی اور ان فوجوں کو حلب سے کچھ دور ایک پہاڑی سلسلہ میں لا کر لڑانے کا فیصلہ کیا۔ ایوبی نے اپنی فوج کو اس پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ کے باہر خیمہ زن کر دیا۔ جب حملہ ہوا تو ایوبی کی فوج حملہ آور فوجوں کو پھنسا کر پہاڑی درے میں لے آئی جہاں دائیں بائیں کی چوٹیوں سے ایوبی کے کمانڈوز نے ان پر آگ کی ہانڈیاں برسائیں اور فتح اپنے نام کی۔ حملہ آور فوجوں میں سے حلب کی ایک ریزرو فوج نے پہاڑی سلسلہ کے دائیں جانب سے عین اس وقت حملہ کر دیا جب پہلے سے حملہ آور فوج پہاڑی درے میں آتشی تیروں اور ہانڈیوں کی زد میں تھی۔ ایوبی نے جنگ کی پلاننگ کے وقت اس طرف سے حملہ کے پہلو پر غور تو کیا تھا لیکن فوج کی کمی کے باعث وہ اس کے بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ یہ حملہ جیتی ہوئی بازی کو شکست میں بدل دینے کے لیے کافی تھا۔ لیکن عین اسی وقت 500 گھڑ سواروں کا دستہ کہیں سے مدد کو آن پہنچا۔ جس میں 400 خواتین تھیں اور 100 مرد۔ ایوبی جو کہ قوم کی بیٹیوں کو میدان جنگ میں لڑانا معیوب سمجھتا تھا اسنے انہیں جب واپس پلٹنے کو کہا تھا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ایک مرد نے ایوبی کو ایک خط دیا جو زنگی کی بیوہ کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میرے بھائی ایوبی میں جانتی ہوں کہ تم بیٹیوں کو میدان جنگ میں لے جانے کے حق میں نہیں لیکن اگر تم نے انہیں واپس بھیجا تو دمشق کے مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ ان کے جذبہ جہاد کی قدر کریں۔ 
یوں ایوبی نے انہیں ساتھ لڑنے کی اجازت دی اور دائیں جانب سے حملہ آور حلب کی فوج پر ان 400 خواتین مجاہد بہنوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور فاتح ٹھہرا۔ اسی جنگ کے بعد ایوبی نے اپنے کزن سیف اللَّہ جو کہ میدان جنگ سے فرار ہو چکا تھا، کو خط لکھا جس میں اس نے یہ جملہ بھی لکھا ''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''۔ وجہ یہ تھی کہ فتح کے بعد سیف اللَّہ اور ہرن کے قعلہ داروں کے خیموں سے سینکڑوں رقاصائیں اور خوبصورت پرندے ملے تھے۔ 
امت کے غداروں سے لڑنے کے بعد ایوبی نے فلسطین کا رخ کیا اور جناب عمر (رض) کے بعد واحد امیر بنا جو بیت المقدس کا فاتح ٹھہرا۔ آج بھی بیت المقدس کسی ایوبی کی راہ تکتا ہو گا۔ لیکن اب امت

میں ایک بھی ایوبی نہیں۔ جبکہ ملک الصالح اور سیف اللَّہ جیسوں کی بہتات ہے۔ مسلمان نوجوان عورت، شراب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ کہیں بلند عمارتوں کا مقابلہ ہے تو کہیں محلوں میں کھڑی گاڑیوں کی تعداد کا۔ شاید ایوبی کا پیغام آج کے مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ

''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''

مفتی منیب الرحمن

حدیث دل
میں 19سال کی عمر میں 1964ء میں کراچی آیا‘ پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا ۔ اب یہی میرا شہر ہے ‘ تمام شعوری زندگی اسی شہر میں گزری۔مزاج میں ٹھیرائو ہے‘تلوُّن نہیں ہے ‘دسمبر1965ء میں فیڈرل بی ایریا کی جامع مسجد اقصیٰ سے وابستگی ہوئی اور آج بھی قائم ہے ۔ 1973ء میںعلامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری ‘ علامہ جمیل احمد نعیمی ودیگر اکابر علمائے اہلسنت کی رفاقت میں دارالعلوم نعیمیہ قائم کیا اور آج بھی اُسی سے وابستہ ہوں ۔اندازِ گفتار بھی بے ہنگم اوربے تکانہیں ہے‘ نہ ایسا کرنا میرے بس میں ہے۔ میں اپنی قصیدہ خوانی نہیں کر رہا‘بلکہ ایک حقیقت بتا رہا ہوں‘ نماز بھی ٹھیرائو کے ساتھ پڑھتا اور پڑھاتا ہوں ۔ 
میں نے 1961ء میں گورنمنٹ ہائی سکول اوگی سے میٹرک کیا‘ اُس دور میں وہاں آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ ہم نے پہاڑی علاقے میں پرائمری سے میٹرک تک پانچ میل روزانہ پیدل چل کرپڑھا‘ میٹرک کرنے تک بجلی نہیں دیکھی تھی‘ صرف فزکس کی کتابوں میں اُس کی بابت پڑھتے تھے ‘مشاہدہ نہیں تھا۔خاندانی پسِ منظر الحمد للہ علمی ہے ‘ آج بھی ہمارے خاندان میں اعلیٰ تعلیم کا تناسب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قابلِ رشک ہے ۔ سکول کے ساتھ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ‘ کچھ اسباق اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے عہد کے بہت بڑے عالم دادا جان سے پڑھے ‘ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔چونکہ اچھی بات کو سیکھنامزاج میں تھا ‘ اس لیے کراچی میں استاذِ مکرّم علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری مرحوم کی رفاقت میں تلفظ کی اصلاح ہوئی اور اچھے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر لکھنے کا سلیقہ پیدا ہوا‘ اب بھی اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے‘ غالب نے کہا ہے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے 
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا 
ضمناً بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم مسلّمہ طور پر ایک انتہائی قابل اور ممتاز سکالر تھے ‘ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر تھے ‘ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہیں وزیرِ مذہبی امور بنایا ۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی طرف سے نمائندگی کے سبب مختلف اجلاسوں میں اُن سے واسطہ پڑا ‘ 2001ء میں مجھے بتائے اور اعتماد میں لیے بغیر انہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کا چیئرمین بنادیا‘ اس کا علم مجھے نوٹیفکیشن کے بعد ہوا‘ اُن کی معیت میں چند علما کے ہمراہ قزاقستان کا تاریخی دورہ بھی کرنے کا موقع ملا ‘اس دورے میں چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرُمچی میں ایک دن قیام کا موقع ملا ‘وہاں کا ایک سرکاری مذہبی تعلیمی ادارہ بھی دیکھا ‘ علامہ اقبال نے کہاہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
کاشغر کا علاقہ یہی ہے‘ یہاں ترکی النسل ایغور مسلمان رہتے ہیں‘ مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو نمازیوں کے لیے پگڑیاں ‘ تسبیحیں اور ٹوپیاں بھی رکھی ہوئی تھیں ۔ترکی میں تو مصطفی کمال اتاترک نے ازراہِ عِناد ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن میں ڈھال دیا‘ حروف والفاظ کی ہیئت اور تلفظ ایسا رکھا کہ عربی ‘فارسی وانگریزی دان کے لیے صحیح تلفظ مشکل ہوگیا ‘ اصل مقصد اسلامی علامات اور ماضی سے رشتہ توڑنا تھا‘ محمد اور احمد کا تلفظ بالترتیب مَہْمَتْ اور اَہْمَتْ ہوگیا‘وغیرہ۔ اُرمچی میں بازار میں چکر لگاتے ہوئے دکانوں کے بورڈدیکھے ‘ وہ عربی فارسی رسم الخط میں تھے اوربآسانی سمجھ میں آرہے تھے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر آج ترکی کو واپس اپنے اصل رسم الخط کی طرف لایا جائے تو اُن کے اور ہمارے درمیان تفاہم میں دشواری نہیں ہوگی اور ہمیں ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔یہ ایک المیہ ہے کہ جدید انگلش میڈیم سکولوں کی وجہ سے ہماری نئی نسل اُردو سے دور ہوتی جارہی ہے ‘اگر یہی چلن رہا تو بیس پچیس سال بعد اردو اخبارات اور کتابیں پڑھنا اور سمجھنا نئی نسل کے لیے دشوار ہوجائے گا۔ اسی لیے میں نے نیشنل ٹاسک فورس اور نیشنل کریکولم کونسل کے اجلاسوں میں کہا تھا کہ اَشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ''پاکستانی ساختہ‘‘ نسل تیار نہیں ہورہی ‘یہ چوں چوں کا مُرَبَّہ اور اس محاورے کا مصداق ہے: ''کوا چلاہَنس کی چال ‘اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔
6ستمبر1965ء کو جب ریڈیو پاکستان سے اعلان ہواکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے ‘تو ایک منٹ کے توقُّف کے بغیر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں تعلیم معطل کر کے آیتِ کریمہ پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ‘ جس میں تمام اساتذہ کرام اور طلبہ شامل تھے ‘ ادارے کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری نے کہا: ہندوستان نے ہمارے قَلب (لاہور)پر حملہ کیا ہے۔ مسجدوں میں گڑگڑاکر دعائیں مانگی جارہی تھیں ‘ فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جارہی تھی‘ لوگ حکومت کے ساتھ تَن مَن دَھن سے تعاون کر رہے تھے ‘ نہ کوئی ہلچل مچی ‘ نہ کہرام بپا ہوا ‘ نہ لوگ کراچی سے بستر بوریا اٹھاکر اپنے علاقوں کو روانہ ہوئے‘ نہ مہنگائی کا سیلاب آیا ‘ نہ اَشیائے صَرف کی قلت ہوئی ‘نہ راشن کے لیے لائنیں لگیں‘الغرض پورا نظامِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہا ۔ راتوں کو مکمل بلیک آئوٹ ہوتا اور دن میں زندگی معمول کے مطابق جاری وساری رہتی ۔ اُس وقت پاکستانی ایک متحد ‘مضبوط اور مُستَحکم قوم کا منظر پیش کر رہے تھے ‘ہر ایک نے اسے اپنے دل وجان پر حملہ محسوس کیا ‘ اُسی موقع پر رئیس امروہوی نے جنگی نغمہ لکھا تھا:
خطّۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
شہریوں کو ‘ غازیوں کو ‘ شہسواروں کو سلام
رات کو سب لوگ ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھ جاتے ‘ شکیل احمد مرحوم اتنے جوش وخروش سے خبریں پڑھتے ‘ جیسے وہ دشمن کے مقابل مورچے میں بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہوں۔ اس وقت پوری قوم کا ایک ایک فرد اس جنگ کا حصہ تھا‘ وطن کے لیے مر مٹنے کو تیار تھا۔ پھر ہم نے 1971ء کی جنگ دیکھی ‘وہی ملک وقوم ‘ لیکن 1965ء والا والہانہ جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔ کراچی ڈاکیارڈ میں ہفتہ بھرآگ کے شعلے اور دھویں کے مرغُولے بلند ہورہے تھے ‘ لیکن قوم میں ایک لا تعلقی سی تھی۔ 16دسمبر 1971ء کا المیہ قوم نے خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا‘ کئی لوگوں نے بعض مناظر دیکھ کر اپنے ریڈیو اور ٹی وی سیٹ توڑ دیے‘ بڑے جلوس اور ریلیاں بھی نہیں نکلیں ‘ ایک بے حسی ‘پژمردگی اور اضمحلال طاری رہا۔
اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی غیر متنازع نہیں رہے ‘ لیکن اُن کے کریڈٹ پر آج بھی بعض نمایاں کارنامے موجود ہیں ‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کی تشکیل‘ جس پر نواب خیر بخش مری کے علاوہ اُس وقت کے تمام ارکانِ اسمبلی کے دستخط ثبت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قوم کو پھرحوصلہ دیا اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی شروعات کیں‘ جسے بعد میں تمام حکومتوں نے آگے بڑھایااور بالآخر1998ء میں پاکستان چھ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ نائن الیون کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فوجیوں کو ہدایت تھی کہ یونیفارم پہن کر کنٹوٹمنٹ سے باہر نہ آئیں ۔ پھر 2012ء سے 2018ء کے درمیان جب آپریشن راہِ نجات ‘ضربِ عَضب اورردُّ الفساد شروع ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں ایک بار پھر فوج کی محبت جاگ اٹھی ‘فوج ملک کے لیے قربانیاں دے رہی تھی اور قوم اس کی قدر دان تھی۔غلطی کس نے کی ‘ کہاںکی ‘ حکمتِ عملی اور تدبیر وفراست کا فقدان کہاں تھا ‘ قوم ان تفصیلات میں جائے بغیر فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی ‘ یعنی ایک بار پھر وحدت کی تصویر نظر آنے لگی ۔ یہ سارا پسِ منظر میں نے اس لیے لکھا ہے کہ گزشتہ عشروں میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ‘چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر سب لوگ مجھے دعا کے لیے متوجہ کرتے اور ہم پاکستان کی سالمیت اور فوج کے حق میں دل وجان سے دعائیں مانگتے۔
میں رمضان مبارک میں اپنی مسجد سے متصل مکان میں آجاتا ہوں‘ یہاں میں دسمبر1965ء سے 2002ء تک رہا‘ بعد میں اپنے مکان میں منتقل ہوگیا ۔چونکہ رمضان مبارک میں مجھے صبح وشام درس دینا ہوتاہے‘ لوگ مسائل کے لیے رجوع کرتے ہیں‘ اس لیے میں وہاں منتقل ہوجاتا ہوں‘ یہاں تیسری نسل چل رہی ہے جن کے درمیان میں نے اپنی زندگی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ گزارا ہے ‘ان کے ساتھ ہمیشہ محبت واحترام کا رشتہ قائم رہااور میں نے اُن میں دین اور اہلِ دین کے لیے احترام پایا ‘میرا ادارہ اور مسجد فیڈرل بی ایریا میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ہیں ۔ کئی جذباتی دور گزرے‘ میں اپنے مزاج کے مطابق دین کے حوالے سے حالات کی بابت کلمۂ حق بیان کرتا رہا اور انتہائی جذباتیت کے ماحول میں بھی نوجوانوں سمیت لوگ مجھے برداشت کرتے رہے ۔
سوجب میں ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کوعملی تجربے کی روشنی میں بتاتا ہوںکہ الطاف حسین کا دور اہلِ کراچی کے لیے ایک ابتلا کا دور تھا ‘بہت سے لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے ‘اپنے پرائے کی تمیز اٹھ گئی ‘بہت سے ناگفتہ بہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ‘ بے انتہا جانی نقصان ہوا ‘لسانی عصبیت اپنے جوبن پر تھی‘ اس کے باوجود بحیثیتِ مجموعی اہلِ کراچی کو میں نے ہمیشہ دین کے قریب اور اہلِ دین سے محبت کرنے والا پایا۔لبرل حضرات تحریکِ پاکستان کی جو بھی تعبیریں بیان کریں ‘ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں ‘ان میں مشرقی پنجاب کے مہاجرین بھی شامل ہیں‘ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ تحریکِ پاکستان اسلام کے نام پر بپا ہوئی تھی ‘ لوگوں نے اسلام کے نام پر ہی اس کی حمایت کی ‘اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان سے کبھی مستفید نہ ہوسکے‘ اُن کا بھی اہلِ پاکستان پر احسان ہے ‘ سو اہلِ کراچی کی اسلام اورپاکستان کے ساتھ محبت شک وشبہے سے بالاتر ہے ‘ انہیں اسی نظر سے دیکھا جائے۔ 
میں رمضان میں جوارِ مسجد میں رہنے کی وجہ سے ٹیلی ویژن بالکل نہیں دیکھتا‘ بس صرف صبح کے اخبارات میں سرسری خبریں دیکھ لیتا ہوں ۔ جب میں نے داتادربار لاہور ‘کوئٹہ اور گوادر کے واقعات کے بارے میں صبح کے اخبار میں پڑھاتو مجھے حیرت ہوئی کہ شام کو نہ مسجد میں کسی نے ان کا ذکر کیا‘ نہ دعا کے لیے کہا۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی مجھے گھائل کرگئی کہ آخر دلوں کی یہ کیفیت اوراچانک کایا پلٹ کیسے ہوگئی ۔ ہمارے نظام میں کہیں کوئی بے تدبیری تو نہیں ہوگئی‘ بس یہی سوچ مجھے پریشان کر رہی ہے‘ سوچا اپنے قارئین کو اس الجھن میں شریک کرلوں ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی "کوفہ سے مدینے تک"

#داستان
"کوفہ سے مدینے تک"
  مولانا م نعمانی کا سفر شہادت
  تحریر 
محمد اسرار الحق مد نی چیمہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
 4 فروری کو علامہ خادم رضوی صاحب کی اے  ٹی سی میں پیشی کے بعد چند ساتھی وکلاء کے ہمراہ  کریک ڈاؤن میں زخمی ہو کر اسی حالت میں جیل میں دو ماہ گزارنے والے بزرگ عالم دین 
مولانا منیر نعمانی
 کی عیادت کے لیے لیے قریبی نجی ہسپتال حاضر ہوئے ہوئے جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت ڈاکٹر  مرہم پٹی کر رہے تھے مرہم پٹی سے فراغت کے بعد مولانا نے ہنستے مسکراتے مکمل داستان  ظلم سنائ, داستان انہی کے الفاظ میں حاضر خدمت ہے 
 مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے وقت ہمارا خاندان دو آرا میں منقسم ہو گیا ,آدھے افراد پاکستان آنا چاہتے تھے جبکہ باقی لوگ اپنی جنم بھومی اور وطن کی محبت میں مقبوضہ کشمیر کو ترجیح دے رہے تھے  میرے والد کے ایک فقرے نے  سارے گھر کو ہجرت پر متفق کردیا , انہوں نے فرمایا
" انڈیا ہمارے لیے کوفہ ہے اور پاکستان مدینہ" 
کوفہ  میں ہماری جان مال عزت اور ایمان کو خطرہ ہے 
 مدینے میں ہمارا سب کچھ محفوظ ہوگا 
پاکستان پہنچ  کر میں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے درس نظامی کیا ,گریجویشن کی اور آزاد کشمیر میں بطور جج قاضی تعینات ہوا ,
 اسی خوشی میں مرشد کریم کو ملنے پہنچا  تو انہوں نے فرمایا یا تجھے اللہ کا دین اس لیے نہیں پڑھایا تھا تا کہ تو سرکاری ٹکڑوں پہ پلے 
" جا اور جاکے کوٹ عبدالمالک لاہور کی جامع مسجد میں مولوی بن کے دین کی خدمت کر" 
 میں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیا اور پچھلے چالیس سال سے کوٹ عبدالمالک کی اسی مسجد میں دین متین کی خدمت میں مصروف ہوں 
 ایک رات اچانک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے مسجد کا محاصرہ کر لیا کیا میں نے اہلکاروں کو بتایا کہ میرا کسی سیاسی جماعت اور کسی احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے ہے اور نہ میں نے آج تک  کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا ہے ہے لیکن انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا 
پولیس مجھے لے کر جیسے ہی باہر نکلی
 محلے کے نوجوانوں نے مزاحمت شروع کر دی 
عورتیں بچے اور بوڑھے گلیوں میں نکل آئے آئے
 اہلکاروں نے سیدھا فائر کرنے شروع کر دیے  جس سے دو جوان شہید ہو گئے گئے شہادتوں کے باوجود مزاحمت ختم نہ ہوئی تو اہلکار مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلے لے
 میں واپس اپنے حجرے میں آگیا یا دریں اثناء اہلکاروں نے عقبی راستہ استعمال کرتے ہوئے مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا  اور مجھے جوتے بھی نہ پہننے دیے  شوگر کی وجہ سے میرے پاؤں سن رہے ہیں
 اسی حالت میں مجھے موٹر سائیکل پر لاد کے تھانے لے جایا گیا جب وہاں جا کر مجھے اترنے کا کہا گیا تو پتہ چلا کہ میرے پاؤں کا تلوا موٹر سائیکل کے سائلنسر کے ساتھ چپک گیا ہے ہے اہلکاروں نے میرا پاؤں کھینچ کر جدا کیا تو ہڈیوں تک پاؤں کا تلوا اس کے ساتھ رہ گیا 
اسی حالت میں مجھے دو ماہ جیل میں رکھا گیا 
آج رہائی ملی ہے تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ گینگرین پھیل گئی ہے پاؤں کاٹنا پڑے گا یہاں تک بول کے سر جھکا کے خاموش ہوگئے گئے تھوڑی دیر بعد لمبی سرد آہ کھینچیتے ہوئے سر اٹھایا اور بولے 
" میں نے یہ ساری تکلیف آقا کے نام پر ہنستے مسکراتے برداشت کی " لیکن میری والدہ نے آج جب مجھے فون کرکے ایک جملہ کہا ہاں تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے گئے انہوں نے فرمایا بیٹا تمہارا باپ تو کہتا تھا کہ
 انڈیا کوفہ ہے اور
 پاکستان مدینہ
  اتنا ظلم تو انڈین سیکورٹی فورسز نے تمہارے باپ نے نہیں کیا تھا جو نام نہاد ریاست مدینہ کے اہلکاروں نے تمہارے ساتھ کیا ہے
 قصہ مختصر وہ زہر پھیلتا گیا پہلے پاؤں کاٹا 
پھر پوری ٹانگ
 اور آج زہر پورے جسم میں پھیلنے کے باعث
 مولانا شہید ہو گئے 
 میں سوچتا ہوں جب آپ کا جسد خاکی گھر پہنچا ہوگا تواس ماں نے اپنے بیٹے کی لاش پر پھر یہی فقرہ دہرا کے عدالتی نظام اور ریاستی جبر پر لعنت بھیجی ہو گی
 اور ہر غیرت مند کو کوفے سے مدینے تک کے اس سفر کے نظریے پر نظرثانی پر مجبور کیا ہوگا 
 یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
  یہ وہی اہلکار ہے ہے وزیرستان میں جن کے سر کاٹ کے ان سے فٹبال کے جاتا تھا 
اور ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے حق میں جلوس نکالتے تھے جس کے نتیجے میں ہمی
 خود کش حملوں
 کا سامنا ہوا اور ہمارے قائدین اور کارکنان جعلی ریاست مدینہ پر قربان ہوگئے ہائے افسوس ہمیں اس وقت یہ معلوم ہوتا کہ یہ ریاست صرف عالمی شیطانی طاقتوں کی ایک اعلی کار ہے صرف ایک آلہ کار تو ہم ان کی خاطر اپنی جان کبھی قربان نہ کرتے
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
 اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی

"پاکستانی ادارے زندہ باد"
"چند seconds کی توجہ چاہوں گا"

    یہ زیر نظر سُنَّت رسول ﷺ سے مزین چہرہ کوٹ عبد المالک سے تعلق رکھنے والے حضرت، علامہ منیر احند نعمانی کا پاؤں ہے.... 

   23 نومبر 2018 کی رات دیگر 50 ہزار علماءاسلام کی طرح (بامطابق اخبارات وجرائد) انہیں بھی ملک پاکستان کے ایک حصہ سے گرفتار کیا گیا، 2 موٹر-سائیکل سوار اہلکاران نے انہیں ایک سَڑَک سے گزرتے ہوئے آن دبوچا اور   جیسی ان کی تربیت تھی گریبان سے کھینچا اور اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر ہی ٹانگ لیا، مولانا Diabetic patient (شوگَر کے مریض) تھے پاؤں سُن پڑ گیا اور silencer پر سِرَک گیا، سُن پڑنے کی وجہ سے مولانا کو بھی معلوم نہ پڑا اور وہ دو بدبخت پولیس اہلکار؛ تو ان کی تعریف میں الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوں،،، قصہ مختصر علامہ صاحب کا پاؤں  گرم silencer ہونے کی وجہ سے جلتا جلتا، سائلنسر کے ساتھ چِپَک گیا،،، تھانے پہنچبے پَر جَب پاؤں silencer کے ساتھ گلی ہوئی رَبَڑ کی طرح چمٹا ہوا دیکھا تو بدبختوں نے بجائے کسی first aid وغیرہ کے پاؤں کو بے دَردی سے کھینچ کر silencer سے الَگ کیا اور اس کے بعد اسی طرح without giving any aid  حوالات میں چھوڑ دیا، جیلیں تو پہلے سے ہی علماء سے بھری پڑیں تھیں اور جگہ باقی نہ تھی (ورنہ شاید جیل اہلکاران ہی medical aid محیا کر دیتے) ڈھائی 2.5  مہینے تَک وہیں اور گلے ہوئے پاؤں کے ساتھ حوالات میں رکھا اس دوران ان کے گھر والوں کو یہی معلوم تھا کہ یا تو علامہ صاحب اغوا ہو گئے ہیں یا پھر ایجنسیوں کی جانب سے نامعلوم مقام پَر منتقل ہیں( Actually Missing Person  ہو گئے ہیں) اگر کوئی گھر والا ان کے پیچھے پتا لینے کو جائے گا تو وہ بھی اسی طرح غائب ہو جائے گا تو بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے،،،،، ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد وکلاء نے کچھ تگودو کی اور معاملات ہوئے اور حالات معمول پر آنے لگے تو معلوم پڑا کے علامہ صاحب تو تھانے کے حوالات میں تھے پھر کچھ وکلاء نے تھانے جا کر ایس ایچ او صاحب کے ساتھ منہ ماری کی شدید جھڑپ ہوئی اور اس طرح اس نے زور میں آکر علامہ صاحب کو عدالت پیش کیا گیا ورنہ بامطابق تھانےدار ان کو  اعلیٰ Orders تھے،،، خیر.... پھر عدالت میں وکلاء نے انہیں جوڈیشل کروایا اور اس طرح محترم جیل حکام کے حوالے ہوئے اور ان کا علاج کی شروعات کچھ ہوں ہوئی کہ “ان کا پاؤں کاٹنا پڑا“ اور ابھی جیل میں ہی تھے کہ پھر "مکمل ٹانگ کاٹنی پڑی" اور اس کے بعد تقریباً 3 سے 4 ماہ گزرنے کے بعد جج صاحب کو تھوڑا تَرس آیا اور انہیں رہائی ملی، رہائی بھی کیا کہ پہلے ہی علامہ صاحب ہسپتال میں موجود تھے بَس اب ان کا دوسرا پاؤں ھتھکڑی سے نکل گیا تھا، اس کے بعد تکلیف بڑھی تو ان کا دوسرا پاؤں اور پھر مکمل ٹانگ کَٹنے کے مراحل میں رہی اور.......

 آج ٹھیک اس وقعے کے چھ سات ماہ بعد تکلیفوں سے گُزَر وہ قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں❗
ان کا جنازہ آج شام عصر کی نماز کے بعد کوٹ عبد المالک میں ادا کی جائیگی!

 سوال یہ ہے کہ
کہاں ہیں انسانیت کا راگ آلاپنے والے؟ (Humanists)؟! یا "داڑھی والے" آپ کے حقوق العباد کی پیمانے پر نہیں اتے؟
اور دوسرا سوال میرا "اربابِ اختیار" سے ہے کہ
کیا اتنا سَب کچھ کرنے کے بعد آپ یہ سَب کانٹ پیمرا کے ذریعے لوگوں کے سامنے (میڈیا پر آنے) سے بھی روکیں گے کہ مجرموں کو سَزا دینی پڑ جائے گی،،،
 تو.........  اس کے بعد آپ اس شخص کے پیاروں(بھائی، بچوں عزیز واقارب) سے یہ توقع کریں گے کہ یہ

“پاکستان پولیس زندہ باد" "پاکستانی ادارے زندہ باد"  کے نعرے لگائیں؟!

پاکستانی قانون کو سلام ٹھوکیں گے؟!

معذرَت کے ساتھ اتنا اندھا تو میں بھی نہیں ہوں کہ اس طرح  executive positions پر براجمان کالی بھیڑروں کے ذاتی مفاد کے پیچھے ملک کا نام رکھ کر قربانیاں دی جائیں!
کاپی
(اَز اِبن إِسماعيل شَامیٌ)

غازی محمد یوسف قادری صاحب

غازی محمد یوسف قادری صاحب کی طرف سے اصغر کزاب کو واصل جہنم کرنے کی کوشش پر 6 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں  
غازی محمد یوسف قادری صاحب کون ہیں اور اصغر کزاب ملعون کون ہے کیا تفصیلات ہیں اس واقعہ کی یہ ساری کہانی محمد عثمان صدیقی صاحب کے الفاظ میں تح تحریر کر رہا ہوں 
از محمد عثمان صدیقی
میڈیا ریسرچ اینالسٹ
23 جنوری 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی جناب محمد نوید اقبال نے برطانوی نژاد جھوٹے مدعی نبوت اور گستاخ رسول اصغر کذاب کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی یہ کیس کیا تھا آئیں ھم آپکو بتاتے ھیں 
۔اصغر کذاب برطانیہ کے شہر ایڈن برگ اسکارٹ لینڈ
 Edinburgh Scotland
 کا رہائشی ہے۔ چند سال پہلے اُس نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی۔ تفصیلات کے مطابق ستمبر 2010 
میں راول پنڈی کے پوش ایریا گلزار قائد سے ملحق ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی برطانوی نژاد اصغر کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ وہ خود کو ”محمد رسول اللہ“ کہتا ۔(نعوذ باللہ) اس سلسلہ میں اُس نے باقاعدہ اپنے ویزیٹنگ کارڈ اور لیٹر پیڈ چھپوا رکھے تھے۔
 22 ستمبر 2010ء کو تھانہ صادق آباد پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور ایف آئی آر نمبر 842/10 کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اُسے صادق آباد سے گرفتار کر لیا۔(گرفتاری میں الحمدللہ راقم کا بھی کردارتھا مکمل واقعہ تحریر میں آگے پڑھئے)
دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ اللہ کا رسول (نعوذ باللہ) ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اُس کے مضافات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جتنے بھی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بنے اور لگے ہیں۔ پولیس نے ملزم کے اس اعترافی بیان کی باقاعدہ ایک ویڈیو بنوائی، تا کہ وہ عدالت میں اپنے اس بیان سے منحرف نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ کا چالان مکمل کر کے ملزم کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ ملزم کی طرف سے ابتدا میں کئی وکلاء پیش ہوئے، جن میں پی پی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کی بیٹی بیرسٹر سارہ بلال پیش پیش تھی۔ سارہ بلال نے کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ جج صاحب جناب جناب نوید اقبال سے نہایت بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا، جس پر انہوں نے بے حد روا داری اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ مقدمہ کو 3سال تک غیر ضروری طوالت دینے، جج صاحب کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے، اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ڈالرائزڈ این جی اوز کے بے بنیاد واویلا کرنے اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کے کئی منفی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ عدالت میں ملزم کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وہ پاگل پن کی بیماریParanoid Schizophrenia کا مریض ہے۔ اس پر محترم جج صاحب نے ملزم کے دماغی معائنہ کے لیے ایک بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا،جس پر ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے ملزم کا مکمل طبی معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ میڈیکل بورڈ نے ملزم کی ذہنی حالت بالکل تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُسے ایک صحت مند نارمل شخص قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش ایریاز میں ملزم نے کروڑوں روپے کی مہنگی ترین چھے کوٹھیاں خریدی ہیں، جن کی رجسٹریاں باقاعدہ اُس کے نام ہیں۔ یہاں تو اُس کی نام نہاد بیماری نے کوئی غلطی نہیں کی۔ 
ملزم کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے اُس کا پاگل پن ثابت ہو۔ لیکن جب شان رسالت میں توہین کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے ملزم کو پاگل پن کی بیماری کا شکار قرار دے کر اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کی ویڈیو طلب کی تو پتا چلا کہ متنازع ویڈیو ریکارڈ سے غائب ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اس متنازع ویڈیو کا سراغ ملا اور ”اوپر“ سے حکم آیا کہ یہ ویڈیو عدالت کے علاوہ کہیں استعمال نہ ہو گی، کیوں کہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
اس کیس کی سب سے بڑی خوبی اس کی غیر جانب دارانہ اور شفاف ترین تفتیش ہے جو انتہائی ایمان دارانہ شہرت کے حامل پولیس آفیسر جناب زراعت کیانی ایس پی نے کی۔ قانون توہین رسالت کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمہ کی تفتیش ایس ایچ او وغیرہ نہ کرے، بلکہ ایس پی کے عہدہ کا حامل آفیسر اس کی تفتیش کرے۔ مشرف دور میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اس قانون کے تحت درج کیے گئے ہر مقدمہ کی تفتیش ایس پی کے عہدہ کے برابر پولیس آفیسر کرتا ہے۔ چناں چہ اس کیس کی تفتیش بھی ایک ایس پی نے کی اور اپنی تفتیش میں انہوں نے ملزم اصغر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا۔ اس سب کے بعد پروپیگنڈا کیا جا تارھا کہ مقدمہ ھی غلط درج ہوا۔ 
22 جنوری 2014ء کو ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے جج صاحب جناب نوید اقبال سے درخواست کی کہ اُسے اعتراف جرم کرنے پر کم سے کم سزا سنائی جائے۔ جج صاحب نے ملزم سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ بات ہوش و حواس میں کہہ رہے ہیں؟ ملزم نے کہا جی سر! میں یہ سب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ اس پر جج صاحب نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا یہ اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر دے۔ اس پر ملزم اصغر کذاب نے عدالت کے روبرو اپنے رسول ہونے کا اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر کے اُس پر اپنے دستخط بھی ثبت کر دئیے۔ جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو گواہ بناتے ہوئے اُس کے دستخط بھی اس بیان پر کروا لیے۔ بعد ازاں جج صاحب نے رائٹنگ ایکسپرٹ سے ان کے دستخط کے اصل ہونے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ چناں چہ 23 جنوری 2014ء کو جج صاحب نے فریقین کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد شام 4 بجے اڈیالہ جیل میں ملزم کو *سزائے موت* دینے کا حکم سنایا۔ اس کے چند دن بعد ملزم کے وکلاء نے اس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 
مسلمانوں کی طرف سے اس اہم اور نازک کیس کی پیروی ماہر قانون، مجاہد ختم نبوت پاکستان سنی تحریک کی جانب سے نامزد کردہ معروف سنی وکیل جناب راجہ شجاع الرحمن نے کی۔(آپ بیرون ملک سے لا کی تعلیم مکمل کر کے راولپنڈی میں وکالت کر رھے ھیں ناموس رسالت یا دین و مسلک سے متعلق کیسز کی بڑی محبت، غیرت ایمانی و  بڑی جانفشانی سے پیروی کرتے ھیں آپ غازی ممتاز قادری شہید کے وکیل بھی رھے ھیں) انہوں نے اس اصغرکذاب کیس میں بھی مضبوط دلائل دئیے،
ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے بے پناہ دباؤ، سفارشوں، دھمکیوں، وکلائے صفائی کے غیر اخلاقی رویوں کے باوجود انصاف اور میرٹ کا بول بالا کرتے ہوئے مبنی بر انصاف، اصغر کذاب کے لیے سزاۓ موت کا تاریخی فیصلہ صادر فرمایا۔ بین الاقوامی میڈیا کے علاوہ عیسائی اور قادیانی لابی اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرتے رھے ھیں، بلکہ محترم جج محمد نوید اقبال صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا رھا
مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے کیس پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہر پیشی پر برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے ماڈریٹ اور بااثر خواتین کی ایک کثیر تعداد عدالت میں موجود ہوتی اور مقدمہ کی سماعت میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالتی۔ یہاں تک کہ 23نومبر 2012ء کو برطانوی ہائی کمیشن نے کیس میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو خط لکھا، جسے فاضل جج نے کیس کا حصہ بناتے ہوئے سیشن جج کو کوئی دباؤ قبول کیے بغیر سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصغر کذاب کو ضمیر کا قیدی قرار دے کر حکومت پاکستان سے اس کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اصغر کذاب کو حقوقِ انسانی کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات پر کسی ملزم کے خلاف نہ پرچہ درج ہو اور نہ کسی کو سزا دی جائے۔ 
برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیر بارونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ ہم اصغر کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
ایڈن برگ سے رکن پارلیمنٹ شیلا گلمور نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں کہ سزائے موت کے مرتکب برطانوی شہری اصغر کو برطانیہ واپس لایا جائے گا۔ جس کے جواب میں کیمرون نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ وہ اصغر کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نژاد برطانوی شہری کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر وہ شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت پاکستان کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ برطانوی شہری اصغر کو سزاۓ موت سناۓ جانےپر مضطرب ھیں اُمید ہے حکومت پاکستان ہمارے شہری کو رہا کر دے گی۔ اصغر کذاب کو بچانے کے لیے قادیانی اور عیسائی لابی بے حد متحرک رھی
 مغرب میں ملزم کی رہائی کے لیے ایک دستخطی مہم چلائی گئی، جس پر ہزاروں افراد نے دستخط کیے۔ یہ یادداشت اس وقت کے امریکی صدر اوباما سمیت دنیا بھر کے بااثر افراد کو بجھوائی گئی برطانوی قونصلیٹ کی سفارش پر ملزم اصغر کذاب کو جیل میں خصوصی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے موبائل فون، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ سمیت ہوٹل سے کھانا منگوانے کی مکمل سہولیات حاصل ہیں۔ ان واقعات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔اب آتے ھیں اصغر کذاب کی گرفتاری کی تفصیل اور غازی یوسف قادری کے اس معاملے میں کردار پر۔
اصغر کذاب نے ھمارے علاقے صادق آباد راولپنڈی میں غازی ممتاز قادری شہید کی رھائیش گاہ سے قریب ھی ایک پراپرٹی ڈیلر ملک حفیظ اعوان (یہی کیس کے پہلے مدعی ھیں) کے دفتر میں اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس میں اپنے نام کے ساتھ درود (ﷺ) درج تھا یہ بدبخت وزٹنگ کارڈ دے کر آگے نکل گیاپراپرٹی ڈیلر نے اس وقت تو دھیان نہ دیا مگرکچھ ھی دیر بعد جب کارڈ دیکھا تو ارد اردگرد کے تاجروں کو فوری آگاہ کیا اس وقت اصغر کذاب بدبخت تھوڑا ھی آگے پہنچا تھا اس کے پیچھے اسے مارکیٹ کے لوگ پکڑنے کو دوڑے یہ ایک دکان میں داخل ھوا میں راقم (محمد عثمان صدیقی) بھی اُس وقت اسی مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر دوست حافظ عمیر مغل کی موبائل شاپ پر موجود تھا جوں ھی مجھے پتہ چلا میں کچھ دوستوں کو لے کر  موقع پر پہنچ گیا علاقے کے نوجوانان و تاجر حضرات مل کر لبیک یا رسول اللہ ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کررھے تھے اصغر کذاب کو اسی دکان کہ جس میں وہ داخل ھوا تھا ھم نے شٹر گرا کے اندر بند کر دیا تمام بازار میں تشویش پھیل گئی انتہائی تحمل کامظاہرہ کرتےہوئے قریب ھی پولیس سٹیشن رابطہ کرکے اس بدبخت ملعون کی گرفتاری کروا دی (لبرلز ومنہاجیے بتائیں کہ ھم نے قانون پر عمل کیا کہ نہیں ؟)
قارئین آپ کو بتایا گیا کہ اس بدبخت کا تعارف کیا تھا اور اس کے تحفظ کے لیے بیرونی و لادینی طاقتیں کیا کیا ھتھکنڈے استعمال کرتیں رھیں اس سب کو دیکھتے ھوۓ عشاقان رسول میں اضطراب ایک فطری امر تھا یہی سب وجہ بنی غازی یوسف قادری کے جرآت مندانہ عمل کی، جوانہوں نے بڑی زبردست پلاننگ کے ساتھ اڈیالہ جیل میں کیا۔
 اڈیالہ جیل میں اسیر اصغر کذاب کی وجہ سے جیل میں بھی اکثر اشتعال پایا جاتا تھا کئی بار اسے غیور مسلمان قیدیوں سے مار بھی پڑی۔
اب پڑھئے غازی یوسف قادری عطاری صاحب کے حوالے سے معلومات:
غازی یوسف قادری مدظلہ چنیوٹ سے تعلق رکھتے ھیں ”عطاری“ ہیں گھر کے اکیلے کمانے والے فرد ھیں یہ پنجاب پولیس میں بھرتی ھوۓ تو اڈیالہ جیل میں تعینات کیے گئے دوران ڈیوٹی اڈیالہ جیل کی مسجد میں امامت فرماتےاور باقاعدگی سے درس بھی دیتے رھے غازی ممتاز قادری شہید سے بے پناہ محبت فرماتے اکثر غازی ممتاز قادری شہید کے بیرک میں آتے جاتے رھتے۔
انہی دنوں یہ اصغر کذاب بھی اڈیالہ جیل قید تھا ایک دن غازی یوسف قادری باوردی ڈیوٹی پراڈیالہ جیل آتے ھوۓ اپنی جرابوں میں چھوٹی خودکار پسٹل چھپا کر لے آۓ اور اصغر کذاب کے بیرک پہنچ گئے  اس بدبخت کو سامنے بلایا للکار کر اس پر فائر کھول دئیے مگر شومئی قسمت کہ اس کے چند گولیاں لگیں مزید فائر جاری تھے کہ وہ زخمی حالت میں بیرک کے پیچھے باتھ روم والی سائڈ پر بھاگ کھڑا ھوا اس کا بازو اور پیٹ کافی متاثر ھوا غازی یوسف قادری اس کو زندہ چھوڑنے پر ھرگز تیار نہ تھے مگر اس اچانک کاروائی پر جیل عملہ الرٹ ھو گیا اور غازی یوسف قادری کو قابو کر کے گرفتار کر لیا گیا۔
غازی یوسف قادری کو بھی بیرونی دباؤ کی بدولت دوران اسیری بہت مشکل اٹھانی پڑی مگر استقامت کا منارہ بنے رھے۔ دوران اسیری بھی انکا غازی ممتاز قادری شہید سے بڑا رابطہ رھا غازی ممتاز قادری شہید ان سے بڑی محبت فرماتے جب غازی صاحب کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رھا تھا اسی راستے میں غازی یوسف قادری کا بیرک بھی تھا پھانسی کےوقت گزرتے ہوئے غازی یوسف قادری صاحب کے بیرک کو بڑی محبت سے دیکھتے رھے۔یہ عشاقِ صادقین اجازت نہ ملنے کے سبب اس وقت مل نہ سکے
غازی یوسف قادری کیس کی پیروی بڑے احسن انداز میں کی گئی غازی ممتاز قادری شہید کے اھل خانہ بالخصوص غازی صاحب کے بھائی عابد قادری عطاری اور ھمارے دوست جناب زبیر ھارونی بھائی کا بہت کردار ھے۔
غازی یوسف قادری کی رھائی ضمانت کے تحت نومبر سال2017 میں ممکن ہوئی۔یوسف بھائی کی رہائی کی اھم وجہ مضروب اصغر کذاب کی جانب سے کیس کی عدم پیروی ھے۔ کیس میں اسکے وکیل نے پیش ھونا ھی چھوڑ دیا تھا۔ بعد از ضمانت ان کا کیس چلتا رہا جس کا فیصلہ پرسوں سنا دیا گیا ہے غازی یوسف قادری مدظلہ کو 6 سال قید سخت 50 ہزار جرمانہ کی سزا سنادی گئی ہے۔غازی یوسف قادری کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 5 سال سزا حملہ کی اور ایک سال سزا ہتھیار رکھنے کی سنائی گئی ہے ہم اس سزا پر بہت دکھ ہوا ہے مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں اللہ یوسف قادری بھائی کو صحت عافیت والی زندگی عطا فرماۓ۔

Wednesday 17 April 2019

Dirilis_s_1_Episode_1

Dirilis_s_1_Episode_1
ترکی کا ارتغل ڈرامہ:
ارتغل فقط ایک ڈرامہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سحر ہے جو مسحور کر دیتا ہے ،یہ ایک طلسم ہے جو جکڑ لیتا ہے ،یہ مغرب کے ہر قلعے کو پاش پاش کر دینے والا جانباز سپاہی ہے،مغرب اس سے کتنا پریشان ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 
نیویارک ٹائمز میں اسے ترکی کا سافٹ ایٹم بم قرار دیا گیا ہے،کہا گیا ہے کہ اردگان اس کے ذریعےمسلمان نوجوانوں کو ورغلا رہا ہے اور انہیں عظیم اسلامی سلطنت کے دلکش خواب دکھا رہا ہے،اس کے ذریعے ایک ایسا جذبہ پیدا کیا جارہا ہے ،جو عنقریب قیامت خیز طوفان کی صورت میں نمودار ہوگا 
در اصل بات یہ ہے کہ 
اس ڈرامے کے ذریعے مسلمانوں کی بزدلی اور احساس کمتری کو ختم کیا جا رہا ہے ،انہیں اپنی تھذیب پر فخر کرنا سکھایا جا رہا ہے ،صوفیاء کرام سے تعلق قائم کرنے کیلئے انہیں محی الدین ابن عربی 
کی مجالس دکھائی جا رہی ہیں،اس وقت یہ ڈرامہ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے
میری نظر میں یہ ڈرامہ اسلامی انقلاب کا ایک عظیم داعی ہے،مسلم نوجوانوں کو ضرور یہ ڈرامہ دیکھنا چاہیے ،اگرچہ اس کو مکمل اسلامی ڈرامہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بعض سین ایسے ہیں ،جو قابل اعتراض ہیں ،لیکن اس کی بھی ایک وجہ ہے ،دراصل یہ تاریخ ہے، اس میں جو کچھ ہوا ،وہی کچھ دکھایا گیا ہے، لیکن ایسے سین  آٹے میں نمک کے برابر ہیں 
اب بات کرتے ہیں کہ آخر اس ڈرامے میں کیا دکھایا گیا ہے
یہ ڈرامہ ترکی کے ایک خانہ بدوش قبیلے قائی پر بنایا گیا ہے ، جس کے پاس فقط دو ہزار جنگجو تھے لیکن یہ جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے،یہاں تک کہ صلیبی اور منگول بھی ان سے فکر مند رہتے تھے ،ارطغل قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا بیٹا تھا ،یہ بے خوف اور نڈر مسلمان تھا ،یہ اسلامی اتحاد کا عظیم داعی تھا ،یہ کافروں کی ہر ایک سازش کو ناکام بنانے والا عظیم ہیرو تھا ، اس ڈرامے میں عیسائیوں کی سازشوں کو بڑی تفصیل سے دکھایا گیا ہے ،عالم اسلام کی نااتفاقی بھی بڑی ایمان داری سے دکھائی گئی ہے،مسلمانوں میں چھپے غداروں کو بھی بہت احسن انداز سے دکھایا گیا ہے 
اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد آپ بھی ضرور سوچیں گے کہ آخر کیوں ؟
یورپ ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر اتنا زور دے رہا ہے ،یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں سے کون کس کس طرح فائدے اٹھا رہا ہے
اگر آپ تلاش کریں گے ،تو  آج  بھی  آپ کو اس ڈرامے کے کردار جگہ جگہ نظر آئیں گے 
اس ڈرامے کے متعلق کیے گئے پروپگنڈے کے متعلق طیب اردگان نے فقط ایک جملہ کہا تھا
جب تک شیر خود اپنی تاریخ نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے

Thursday 10 January 2019

پیر کا پتر پیر نہیں ہوتا


بات بلکل درست ہے ہم بھی گالی گلوچ کے حق میں نہیں اور اسے برا کہتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں مگر سعادات اکرام کو بھی خیال کرنا چاہۓ جیسا کہ جامی صاحب نے کہا کہ کسی عام مولوی کا کوٸ حق نیں کہ ختم نبوت کا ٹھیکے دار بن جاۓ مسٸلہ ختم نبوت کے ٹھیکے دار ہونے کا نہیں دکھ اس بات کا ہے صرف کہ یہ کام جو عام مولوی کر رہا ہے معذوری کی حالت میں وہ کام ال نبی پاک ﷺ کو کرنا چاہۓ صف اول میں ا کے وہ بھی تو سعادات اکرام ہیں جو جیل کاٹ کے اۓ ہیں کیا انکو کسی نے کچھ کہا نہیں بلکہ سب نے ان کو سر انکھوں پے بیٹھایا ہے اور جامی صاحب قبلہ کا تعلق اس گھرانے سے ہے جو کہ اس معاملے میں سب سے اگے تھا قبلہ عالم حضور پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ رحمہ سے لے کر حضور پیر نصیر الدین نصیر علیہ رحمہ تک سب کا کام موجود ہے ہر طرح سے مگر موجودہ گدی نشین فقط گدی نشین ہیں کام نہیں کر رہے سوا امرا کی چاپلوسی کے جو کہ اس دربار عالیہ کی نہ روایات تھی اور نہ ہی اس کا خاصہ 

پیر کا پتر پیر نہیں ہوتا
سید کا بیٹا سید ہوتا ہے
بیشک اپکی بات مانتا ہوں میں مگر پھر حضرت نوح علیہ اسلام کے بیٹے اور حضرت لوط علیہ اسلام کی زوجہ کی تعظیم بھی کرو کہ ایک بیٹا ہے اور ایک زوجہ ہے نبی ازواج امت کی ماٸیں کہلاتی ہیں 
پھر ابو لہب کی بھی تعظیم کرو ابو جہل کی بھی تعظیم کرو کہ وہ بھی جناب حضرت عبدالمطلبؓ کی اولاد ہیں 
اور اللہ پاک کا فرمان عالی شان بھی سامنے رکھیں
کہ ہم نے نیک ارواح سے نیک ارواح کو تخلیق فرمایا ہے 
دوسری جگہ حکم ہے کہ
ہم نے اہل بیت اطہار سے ہر طرح کی براٸ کو ختم فرما دیا ہے اور انکو پاک صاف فرما دیا ہے 
اب نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان دیکھیں
فاطمہ سیدہ التنساعلیہ اسلام اپ اپنے عمل کی خود جواب دے ہیں 

اسلام میں سب برابر ہیں کسی گورے کو کالے پے اور کسی کالے کو کسی گورے پے کوٸ فوقیت حاصل نہیں ہے اگر تم میں سے اللہ پاک کے حضور اگر افضل ہے تو وہ اپنے تقوی کی بنیاد پے ہے
سعادات اکرام کی عزت انکا احترام ہر حال میں لازم ہے ہم کریں گے اپنی اخری سانس تک  ان شاء اللہ مگر انکو بھی دیکھنا ہو گا کے سامنے معملہ انکے نانا کی عزت کا ہے انکی ناموس کا ہے اگر کوٸ پہرے دار پہرہ دیتا ہے تو اسکی دل شکنی کرنے کی بجاۓ اسکی حوصلہ افزاٸ فرماٸیں اگر کوٸ اختلاف ہے پہلے تو بہتر ہے اسے ختم کریں نہ ہو تو خود صف اول میں ا جاٸیں مگر اپ نہ تو خود اس معملے کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں اور جو پرہ دے اسے بھی غلط کہتے ہیں تو کیسے چلے گا یہ بات اپ جان لٸیں کے اپ کے عزت تب ہے جب اپ کے نانا نبی معظم ﷺ کی عزت ہے کیوں کہ ہم اگر اللہ پاک کو بھی جانتے ہیں تو وہ فقط نبی پاک ﷺ کی وجہ سے جانتے ہیں اس لۓ امت ناتواں پے رحم فرماٸیں اور اگے اٸیں اپ کے ہوتے ہوۓ گستاخہ بری ہو جاۓ تو بقول امام مالک اس امت کو جینے کا کوٸ حق نہیں ہے اور واقعی ہم سب کو مر جانا چاہۓ اللہ پاک عزاب کو دعوت دے چکے ہیں ہم لوگ 😢😢😢😩😢😢😢😢😩😢😢😢

Wednesday 9 January 2019

شطرنج کے مہرے

شطرنج کے مہرے 
     علامہ خادم حسین رضوی مدظلہ عالی نے حلف نامے میں تبدیلی کرنے پر فیض آبادمیں دھرنا دیا۔ اس وقت پیر نظام الدین جامی، مفتی حنیف قریشی وغیرہ شامل ہوئے۔ ایک عامی نے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کئی راتیں کھلے آسمان تلے گزاریں۔
     اسی عامی کی محفل میں آکر پیر نظام الدین جامی صاحب نے نواز حکومت کے خلاف بھڑاس نکالی۔ اور مولانا خادم حسین رضوی کو خوب سراہا۔
    اس وقت ایک عام بہت سے سادات اور مفتیان کرام کی جان بنا ہوا تھا کیونکہ اس وقت اس دھرنے سے نواز شریف مخالف قوتوں کو بھی فائدہ ہو رہا تھا یعنی اسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کو سو ایسے پیر اور مفتیان جوش و خروش سے شامل ہوئے ۔
    پھر جب عمران خان کے دور حلف نامے میں تبدیلی سے بڑا جرم سرزد ہوا اور آسیہ ملعونہ کو رہا کر دیا گیا تو وہ سب پیر اور مفتی جو نواز دور میں دئیے گئے دھرنے میں شامل ہوکر عاشق رسول بنتے رہے ، خاموش رہے۔
 علامہ رضوی نے دھرنا دیا کئی دن دیا بالاخر حکومت نے انکے مطالبات کو تسلیم کرکے ان سے معائدہ کرلیا۔
   خاص بات یہ تھی کہ ایجنسیوں کے اشاروں پر ناچنے والے پیروں  اور مفتیوں نے عمرانی حکومت اور عدلیہ کے فیصلے کےخلاف دئیے گئے دھرنے کے حق میں ایک بیان تک جاری نہ کیا۔
جس سے پتہ چلا کہ یہ ایجنسیوں کے مہرے ہیں جنہیں وقت کی مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
    آسیہ ملعونہ کے خلاف کامیاب دھرنے نے گورا سرکار اور عمرانی حکومت کو دہشت میں مبتلاء کر دیا کہ اس تنظم کی قوت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اسے روکنا ضروری ہے۔
اس کےلیے پہلے میڈیا پر بھرپور مہم چلائی گئی کردارکشی کی۔اسکے بعد  دھوکہ دہی سے کارکنان اور لیڈران کو گرفتار کرلیا گیا۔
   انکی گرفتاری پر گورا سرکار اورعمرانی حکومت دونوں خوش تھے کہ اب انکو کچل دیا گیا ہے۔ انکے خلاف آواز بلند کرنے والا کویی نہیں بچا ہے۔ 
اس پورے عرصےمیں تنظیم المدارس، وفاق المدارس، مولانا فضل الرحمان،مولانا اودنگزیب فاروقی وغیرہ نے تحریک لبیک پاکستان کی بےلوث حمایت کا اعلان کیا۔
 انکی گرفتاری کے بعد گوراسرکار کے یوتیوب چینل اور بوٹ پالشیوں نے  رضوی صاحب کو راء کا ایجنٹ ثابت کرکے ںدنام کرنیکی بھرپور کوشش کی جس میں ناکام رہے۔
اسی اثناء میں
#PTI_Anti_Islam_No_More
کا ایک ٹرینڈ نکلا جس نے حکومت اور گورا سرکار کے کان کھڑےکر دئیے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اس ٹرینڈ کو کامیابی سے ہینڈل کرگئے۔
کان کھڑے ہی تھے کہ دوسرا بڑا ٹرینڈ
#IAmKhadimRizvi
سوا دو لاکھ ٹویٹس پر مشتمل نکلا۔
اس ٹرینڈ نے گورا سرکار اور عمرانی حکومت کےچھکے چھڑا دئیے کہ جس تحریک کو ہم مردہ سمجھ رہے تھے اور جسکے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ اب بےجان ہوچکی ہے وہی تحریکی ایکدم نئے جذبے کیساتھ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر ہمارے سامنے کھڑی ہے۔
          گورا سرکار نے ان  لوگوں کے  حوصلے پست کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے مولانا آصف جلالی صاحب کو لانچ کیا۔ جب انکی یہ کوشش ناکام نظر آیی تو  جلالی صاحب کے استاد عرفان مشہدی صاحب کو لانچ کر دیا۔مشہدی صاحب جو گزشتہ ایک دو سالوں سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔نہ ناموس رسالت کے معاملے پر انہوں نے کویی موقف دیا اور نہ ہی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کیا۔لیکن علامہ خادم حسین رضوی مدظلہ العالی کے خلاف الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح اچانک نکل کر سامنے آگئے اور اپنی بھاری بھر کم توپ کا رخ آسیہ ملعونہ یا عمران خان کی جانب کرنے کی بجائے علامہ رضوی کی طرف کرلیا۔
          گورا سرکار کی اس توپ نے گولے داغے ضرور مگر اس وقت بے اثر ثابت ہوئے
جب ٹویٹر پر 
#IAmMumtazQadri
کے ٹرینڈ نے ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد تویٹس حاصل کیے
اور
#RizviRevolution
نے اڑھائی لاکھ کے قریب ٹویٹس حاصل کیےاور وہ بھی ایک دن کے چند گھنٹوں میں۔
یہ سب دیکھ کر گورا سرکار ہکا بکا رہ گئی۔ گورا سرکار سمجھ گئے کہ انکے سابقہ مہرے مقررہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
اس لیے اب ضروری ہے کہ ان سے بھی بڑے مہرے کو سامنے لایا جائے  سو گورا سرکار نے پیر نظام الدین جامی صاحب کو سامنے لائی 
پیر نظام الدین جامی صاحب نے ختم نبوت کانفرنس میں ختم نبوت کے منکر مرزا غلام احمد قادیانی ملعوں، قادیانیوں اور گستاخہ آسیہ ملعونہ کو ہٹ کرنا تھا کانفرنس کے نام کے حساب سے 
      لیکن جامی صاحب کی توپوں کا رخ علامہ خادم حسین رضوی کی جانب رہا۔ اس توپ سے جو بھی گولا نکلا اسکا ٹارگٹ صرف رضوی صاحب تھے۔       جامی صاحب کو یہ ٹارگٹ ایک لکھے گئے کاغذ کے ذریعے بتایا گیا تھا۔ جوں جوں جامی صاحب کاغذ کو اوپر کرتے جاتے توپ سے گولے برستے جاتے۔
     خیر ایجنسی اپنے شطرنج کے مہرے باری باری سامنے لا رہی ہے۔ 
ڈالروں اور پاؤنڈز کی خاطرمسلمانوں کا خون بہانے والوں کا خون مسلم سے جی نہیں بھرا تھا اس لیے انہوں ناموس رسالت کا سودا کرلیا۔
اب سودے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ رضوی کو ہٹانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے غیراسلامی کاموں کو کھل کر کرسکیں۔
گورا سرکار کے جنرل نستور و کپور نے تو اب آگے ہی بڑھنگ کا سلوگن لگا دیا ہوا ہے۔ اب تو وہ نیو ائیر نائٹ میں ہونیوالی بےحیائی کو امن کی علامت سمجھتے ہیں 
       ایسے سیکولر لوگوں کو دین پسند طبقہ ایک آنکھ نہیں بھا سکتا۔ اس لیے انکے خلاف سازشیں ہوتی رہینگی۔
        دو تین ٹرینڈ بنے تو اتنے منافق سامنے آئے اگر مزید ٹرینڈ بنے تو اصل منافق گورا سرکار بھی سامنے آ جائیگی

Monday 7 January 2019

دنیا چاند پہ پہنچ گئی ہے

دیسی لبرل کاٹھے کے انگریز ایک عرصے سے بک بک کررہے تھے کہ دنیا چاند پر پہنچ گٸ اور مولوی ابھی تک دوربین سے چاند دیکھ رہے ہیں ۔۔دیسی درآمدی لبڑلز ، دیسی ملحدین ، لنڈے کے انگریز کٸ سالوں سے مدارس ، مساجد ، علماۓ کرام ، اور خاص کر رٶیت ہلال کمیٹی کی وجہ سے پاکستانیوں کو ترقی نہ کرنے کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔۔۔
حالانکہ کسی مولوی رویت ہلال کمیٹی نے آج تک کسی یونیورسٹیز ، کالجز میں جا کہ دھمکی نہیں لگاٸ کہ خبردار اگر چاند پر پہنچنے کی کوشش یا ساٸنسی شعبے میں کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کی تو تمھیں کوڑے مارے جاٸیں گے۔۔کاٹھے انگریزوں نے آج تک ساٸنس کے نام پر چلنے والی یونیورسٹیز و انسٹیٹیوٹ سے یہ سوال نہیں کیا کہ او پوپلے منہ والے کلین شیو مسٹنڈے پرنسپل تمھارے کالج یونیورسٹی سے بین الاقوامی طرز کا کوٸ ساٸنٹس پیدا کیوں نہیں ہورہا۔۔۔لاکھوں تنخواہ خصوصی مراعات ، پیٹرول گاڑیاں اٸیر ٹکٹ ہڑپنے کے باوجود تمھاری یونیورسٹیاں کالجز سواٸے چھانڑے بازی کے اڈے نظر آنے کے تعلیمی کارکردگیاں کیوں نہیں دکھارہیں۔۔۔؟؟
چونکہ لنڈے کے انگریز و دیسی لبڑلز کو فنڈ ہی مذہب کو ٹارگٹ کرنے کے ملتے ہیں اسی لۓ اس کی پستول دس بارہ ہزار تنخواہ لینے والے مولوی اور مدرسوں پہ چلتی ہے۔۔۔
گزشتہ دنوں تحریک لبیک کے قاٸدین کے خلاف ہونے والے کریک ڈاٶن کے بعد مفتی منیب الرحمان صاحب نے ایک پریس کانفرس کے دوران خادم حسین رضوی اور ان کے دوستوں کی رہاٸ کا مطالبہ کیا مدارس کے طلبإ کو احتجاج کے لۓ نکالنے کا عندیہ دیا اور ناموس رسالت ﷺ کے لٸے اپنے ایمانی جذبے کی وضاحت کی۔۔۔
مفتی منیب الرحمان کی پریس کانفرس کے بعد مستنصر حسین تارڈ نامی ایک میر جعفر لبڑل کالم نگار نے مفتی صاحب کی تحریک لبیک کی حمایت سے جلتے ہوۓ عمران خان سے رٶیت ہلال کمیٹی ختم کرنے کا مطالبہ کیا اگرچہ اس ٹومی لبڑل کو اصل تکلیف ملعونہ کے خلاف مفتی صاحب کے پریس کانفرس پر تھی مگر کالم میں اس نے رٶیت ہلال کمیٹی کے بے جا اخراجات کا رونارویا اور مفتی صاحب پر بھاری تنخواہ  اور بے جا مراعات لینے کا بھونڈہ الزام لگایا ۔۔۔اس الزام کے جواب میں مفتی صاحب نے بھی دندان شکن جواب لکھ کر اس دیسی لبڑل کی واہیاتی کے پڑخچے اڑادۓ اور تارڈ کے الزامات کو رد کرکے اس کو اس کی تکلیف کی اصل وجہ بتادی مفتی صاحب نے اسے ساتھ یہ بھی کہا کہ دیسی لبرلز کی آخری سوٸ رٶیت ہلال کمیٹی پر اٹکتی ہے جیسے اسے ختم کرنے کے بعد پوری قوم چاند پر پہنچ جاۓ گی۔۔۔۔۔۔
چونکہ اس وقت اسلامی جموریہ پاکستان قادیانی جمہوریہ پاکستان کا منظر پیش کررہا ہے ۔تحریک لبیک کے معذور اور بیمار قاٸدین اور علمإ کو چھوڑ کر دیگر پیر ، فقیر ، شعلہ بیاں ، مقرر جو کہ سواۓ بارہ ربیع الاول کے جلوس نکالنے ، جھومنے ، گیارہویں ، بارہویں ، عرس ، میلاد ، نذر و نیاز ، چندے ، کونڈے ، اور حلوے مانڈے بارہ ربیع الاول پر لاٸٹیں لگانے اور جھنڈے لہرانے کی برکات و فضاٸل کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت ﷺ پر بدترین حملے پر زبان کو تالو سے چپکاۓ بیٹھے ہیں معلوم چلتا ہے کہ پاکستان میں صرف تحریک لبیک والے ہی اصل مسلمان ہیں باقی صرف سنیوں کی پھرکی لے رہے تھے۔۔۔۔
حکومت قادیان تو ان تمام معاملات کو اچھی طرح پہچانتی ہے کہ کون سا پیر عالم ان کا دشمن ہے اور کون سا ہمارا ایجنٹ۔۔۔۔؟؟
جونہی مفتی منیب الرحمان صاحب نے علماۓ حق ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ ملعونہ کے خلاف اور تحریک لبیک کے حق میں پریس کانفرس کی تو چند دنوں بعد حکومت قادیان نے اپنا بغض نکالتے ہوۓ رٶیت ہلال کمیٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔۔۔۔۔۔
سنیوں اصلی اور نقلی کی پہچان سے واقف ہوجاٶ ورنہ بعد میں سواۓ پچھتانے کے کچھ ہاتھ نہیں آۓ گا۔۔۔۔

سونا پاس ہے ، سونا بن ہے ، سونا زہر ہےاٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی ، تیری مت ہی نرالی ہے۔۔۔۔!!!باتحریر خود آدم سیل

میں تو حق بات ہر حال میں کہوں گا

پیر نظام الدین جامی صاحب نے کہاہے کہ اک عامی شخص کو کیا حق ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کا ٹھیکیدار بنے۔
           تو سنئیے  پیر جی
دراصل یہ ذمہ داری آپ جیسے سادات کی تھی جو کہتے ہیں ہمارے لاکھوں مریدین ہیں اور صرف ہم ہی حق پر ہیں لیکن آپ نے نانا جان کی آبرو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک زانیاور قادیانیوں کے حامی کی کھل کر حمائت کی۔
آپ نے آسیہ ملعونہ کی رہائی کے خلاف کتنے مظاہرے کیے اور کب آواز بلند کی؟
       جناب ہم تو ٹھہرے عامی آپ تو خاص ہیں آپ کو چاہیے تھا کہ خاصوں والا کردار ادا کرتے۔
 آپ عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرنے کی بجائے ڈھول باجے ناچ گانےمیں مصروف ہوگئے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
   جناب پیر صاحب اگر آپ سادات رنگ برنگی زنانہ کپڑے پہن کر غیرمحرم عورتوں کیساتھ بیٹھ کر ڈھول کی تھاپ سے محفوظ ہوکر ناموس رسالت کے تحفظ سے لاپرواہ ہوجائیں تو اس میں کسی عامی کا کوئی قصور نہیں۔
      آپ خاص ہوکر عامیوں جیسے کردار کا بھی مظاہرہ نہ کرسکیں تو دوسروں سے شکوہ کیوں کر رہے ہیں۔
    آپ کو اگرعامیوں سے تکلیف ہے تو آپ کو دعوت ہے کہ آپ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے آگے بڑھیں۔ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہیں۔
آپ آسیہ ملعونہ کے معاملے پر سٹینڈ لیں ہم آپکا ہر طرح سے ساتھ دینگے۔
 آپ حکومت وقت کے غیرشرعی کاموں کی مخالفت کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
پیر جامی جی آپ قدم بڑھائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
پنجاب کے پینڈو مریدوں کو بلا کر کانفرنس کروانا اور ہے اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں کالجوں کے لڑکوں اور یورپ امریکہ کے نوجوانوں سے لبیک یا رسول اللہﷺ کے نعرے لگوانا اور ہے
سوچئے اگر آپ نے رقص و موسیقی کی محفلیں جمانے کے علاوہ بھی کوئی کام کیا ہوتا تو
اکیلے عالمی بندے رضوی نے جب لاکھوں لوگوں میں دین کی کڑھن پیدا کر دی ناموس رسالتﷺ پر مر مٹنے کا جذبہ دے دیا تو
پھر آپ جیسے خاص لوگ کیوں رقص و موسیقی یا پھر سیاسی پارٹیوں کے بلے بلے اور تھلے تھلے کرتے رہ گئے
اپنا خاصوں والا کردار کیوں ادا نہیں کیا
یہ قصور آپکا ہے کسی عامی آدمی کا نہیں
اگر قدم بڑھانا آپ کے نصیب میں نہیں ہے اور اللہ نے یہ شرف کسی عامی اور معذور کو عطا کر دیا ہے تو آپ کو سوچنا چاہیے
کہ اللہ نے ایک معذور کو اتنی عزت اور شرف دیدیا آخر مجھ سے کہاں پر کونسی غلطی ہوگئی
جسکی وجہ سے میرے نانا کا دفاع ایک معذور کو سونپ دیا گیا ہے۔
آپ کو شرمندہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ ایسی باتیں کرکے اپنے بغض اور جلن کا اظہار کرنا چاہیے تھا
#میں_تو_حق_بات_ہر_حال_میں_کہوں_گا

خادم رضوی اور علماۓ وقت کی تلخیاں

*۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم رضوی اور علماۓ وقت کی تلخیاں ۔۔۔۔۔۔*
         ایک وجدانی حقیقت

مجھے مشہدی صاحب کے لفظوں پر کوئی تعجب نہیں ۔ 
مجھے جلالی صاحب کے بغض پر بھی کوئی حیرت نہیں ۔
مجھے جامی صاحب کے بھی خبثِ باطن سے بھی پریشانی نہیں
مجھے علماء میں سے خادم رضوی کے خلاف اٹھنے والی کسی آواز سے کوئی حیرت نہیں ۔۔۔
دراصل مشہدی صاحب جامی صاحب جلالی وغیرہ وغیرہ خود ایک بڑے پختہ عالم رہے ہیں ۔ اور پختہ عالم خادم رضوی صاحب بھی ہیں ۔

یہ خالی دو چار نام نہیں نہیں اور بھی کئی جلیل القدر علماء ہیں جو ساری زندگی مناظرے کرتے رہے یا درس و تدریس یا تالیف و تصنیف یا پھر خطابت کرتے رہے ہیں وہ بھی خادم رضوی صاحب کے بارے میں بڑے دل جلے لفظ کہتے ہیں۔

ارے خدا کے بندو ۔ 
یہ نفرت سے نہیں کہتے ۔ ان جلیل القدر علماء کو ایک چیز کھاۓ جاتی ہے کہ ہم نے دین کا اتنا کام کیا ۔ ملکوں ملکوں دورے کیے۔مناظرے کیے ۔ غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ بڑے بڑے ادارے کھولے۔کڑوڑوں مرید ایک اشارے پر جان دینے والے بھی ہیں ۔ ہماری خطابتوں کے جوہر مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جانتے ہیں۔دنیا کی کئی زبانوں پر عبور حاصل کیا ۔ ہم جہاں بھی گئے علم کے علَم بلند کیے۔عیسائیت ، یہودیت اور اس جیسے کئی مذاھب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کامیاب مکالمے کیے۔تحفظِ ختمِ نبوت پر تو ہم نے بھی قادیانیت اور دیگر باطل فرقوں کی دھجیاں اڑائیں ہیں۔ہماری مجلسِ وعظ کے احوال کو مکینانِ عرش جانتے ہیں کہ کس طرح گریبان چاک اور ہستیاں خاک ہوتی ہیں۔۔ ہم میں تو کئی ایسے ہیں جو مقاماتِ سلوک کی اعلیٰ ترین منزلیں مارے بیٹھے ہیں۔۔   ۔۔ مگر ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔
ہاۓ قسمت ۔۔۔ جب ناموسِ مصطفیٰ پر پہرے کی بات آئی ۔۔ تو تقدیر ہم پر سبقت لے گئی۔التفاتِ فضل کے چشموں کا رخ لمحوں میں پھر گیا۔حجاباتِ مشیّت کے ارتفاع نے آنکھوں کو حیرتی کر دیا۔ہمارے رشک پر کم فہموں نے حسد کا اطلاق کر ڈالا۔ہماری نیّتوں کو ایوان و اقتدار کی غلامی سے مشروط کر دیا گیا۔ہوا و ہوس کو ہمارا مقصد کا جزوِلاینفک قرار دیا گیا۔بُھلا دیا گیا کہ ہم ہی وہ وارثانِ علومِ نبوت تھے کہ جنہوں نے ماضی قریب میں کفر و ارتداد کی بنیادیں اکھاڑ پھینکیں تھیں۔ہم ہی تو تھے جنہوں نے ہزاروں علماءکا لشکر آنے والے وقت کے لیے تیار کیا تھا۔مغربی تشکیک کے دھارے میں بہتی ہوئی فکروں کو ہم نے ہی کنارے بخشے تھے۔۔شعور و لا شعور اور تحت و فوقِ شعور سے تعلق رکھنے والی کیفیات و ماہیات کا کلامی و فلسفیانہ اندازِ تدبر ناقص عقلوں کو ہم نے ہی تو سکھایا تھا۔اجتہادی و استنباطی قوتوں کے تعینات ہماری راۓ کے ہی محتاج تھے ۔۔۔
کیا نہیں تھے ہم ۔ یہ تکبر کہاں ۔ یہ تو تحدیثِ نعمت کا بیانیہ ہے ۔کیا ہم میں اب بھی یہ خواہش نہ ابھرتی کہ صحیح استحقاق کا محل ہمارے نفوس ہیں۔
اچانک یہ کیا ہوا ۔ نظامِ میکدہ بدل گیا۔ ہمارا ہی ہم مشرب ۔ ہم مسلک۔معذورِ شرعی۔
جس کی ساری زندگی ضَرَبَ سَمِعَ قَتَلَ کہنے میں گزر گئی۔جس کا ممبر عوامی تقریروں سے زیادہ اونچا نہ ہوا۔جس کو سیاست کے چال چلن کا علم نہیں ۔جو حالاتِ موجودہ کی نزاکتوں سے آشنا نہیں۔۔ ہم کیوں نہ دشت و صحرا کا رخ کریں کہ یہی جوہر اس سعادتِ عظمیٰ کے لیے منتخب ہوا ۔۔۔کیا نیکی تھی اس کے پاس ۔۔۔ کون سا جذبہ تھا اس کے پاس ۔ کس کی دعا اس کو اکرام کے درجے پر لے گئی ۔ چشمِ گریاں کا کون سا آنسو بارگاہِ شفاعت مآب میں ہم جیسے متلاطم و متموج سمندروں پر بازی مار گیا ۔ 
لحاظِ امر کی تقسیم میں کون سی استعدادی صفت فیضانِ ایزدی کی وسعتوں کو جذب کر گئی ۔ 
تلوین سے تمکین اور وجد سے جذب تک کے سلسلوں کی زنجیریں موۓ آتش دیدہ کیسے بن گئیں ۔۔

ارے یہ جلیل القدر علماء اسی کشمکش میں خادم رضوی پر رشک کرتے بظاہر ان کے خلاف بات کہتے ہیں مگر اصل حسرت عدمِ سعادت کی وجہ سے ہے ۔۔

میں مشہدی صاحب اور دیگر علماء اہلِ سنت کو سلام پیش کرتا ہوں جو خادم رضوی کے خلاف بولتے ہیں ۔ 
اور بولو ۔ اور بولو۔ جی بھر کے خلاف بولو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ۔
آؤ مل کے رشک کرتے ہیں ۔۔۔۔ مل کے اپنی تقدیر میں عدمِ سعادت کی وجہ تلاش کرتے ہیں ۔مل کے بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ ہم کو ناموس رسالت پر پہرے کا ایک لمحہ میسر آجاۓ۔

Peer Mohammad Afzal Qadri Gujrat uras e Mahdus e Naik Abadi 1 3 2014

Allama Peer Afzal Qadri 22 February 2018 Emotional Heart Touching Khitab...

Allama Peer Afzal Qadri sab Beautiful New Khitab Choora Shareef