Sunday 16 June 2019

غیرت_مند_فقیر

#غداری کو روکنے کیلئے نورالدین زنگی کی بیوہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا اتحاد نورالدین زنگی کے بیٹے کے خلاف  زبردست تحریر 
#غیرت_مند_فقیر #صلاح_الدین_ایوبی #نورالدین_زنگی  

سلطان نور الدین زنگی (رح) کی وفات کے بعد جب ان کا نو عمر بیٹا ملک الصالح مسند خلافت پر بیٹھا تو صلیبیوں اور عیاش مسلمان امرا نے اس کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے صلاح الدین کے خلاف کر دیا۔ دوستی اور امن کا ڈرامہ کھیلا گیا جس کے تحت سلطان نور الدین زنگی کی قید میں آئے اہم عیسائی رہنماؤں کو بغیر کسی مطالبے کے ملک الصالح نے رہا کر دیا۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے نور الدین زنگی کی بیوہ نے اپنے ہی بیٹے کے خلاف مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو خط لکھا اور دمشق کی خلافت پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اس عورت نے ہی دمشق کی عورتوں کی ذہن سازی کی تاکہ جب ایوبی دمشق کے دروازہ پر آئے تو کم سے کم شہریوں کی طرف سے مزاحمت نا ہو۔ 
خیر دمشق سلطان ایوبی (رح) کے قبضہ میں چلا گیا۔ زنگی مرحوم کی زندگی میں سلطان ایوبی کو ان کا بڑا آسرا تھا۔ کہ دونوں سلطانوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ بیت المقدس کی پنجہ صلیب سے آزادی۔ لیکن اب بیت المقدس بہت دور نظر آنے لگا تھا۔ جب دمشق فتح ہوا تو عیسائی دوست امرا اور ملک الصالح حلب کی طرف فرار ہو گئے۔  یہ وہی حلب ہے جسے دنیا آج allepo کے نام سے جانتی ہے اور پچھلے سال مغربی قوتوں کی بمباری کے بعد شہر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ ملک الصالح نے حلب میں صلیبیوں کی مدد سے پراپوگینڈہ کر کے شہر اور آس پاس کے علاقوں سے ایوبی کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کر لی۔ اب ایوبی کو صلیبیوں سے پہلے اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنا تھا۔ جو بیت المقدس کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے تھے۔ ایوبی کے خلاف تین بڑی مسلمان فوجیں لڑنے کو تیار تھیں۔ پہلی فوج حلب کی، دوسری صلاح الدین ایوبی کے کزن سیف اللَّہ کی اور تیسری فوج ہَرن کے قلعہ دار کی تھی۔ 
وقت گزرا، ایوبی نے کمال مہارت سے سردیوں میں حلب کا محاصرہ کر لیا۔ حلب میں خبر تب پہنچی جب ایوبی بالکل ان کے سر آن پہنچا تھا۔ عیسائی بادشاہ رینالڈ بھاری معاوضہ لے کر ملک الصالح کی مدد کو عیسائی فوج لے کر نکلا۔ ادھر حلب شہر کے اندر اعلان کروائے گئے کہ ایوبی نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے۔ یوں حلب کے مسلمان بھی ایوبی کے خلاف خوب جگر سے لڑے۔ جب ایوبی کو عیسائی فوج کی پیش قدمی کا علم ہوا تو مجبورا اسے شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایوبی اپنے کسی conquest میں ناکامیاب لوٹا تھا۔ ایوبی کا ارادہ تھا کہ راستہ بدل کر عیسائی فوج کے عقب میں جا کر ان پر حملہ کرے گا۔ لیکن جب رینالڈ کو محاصرے کے اختتام کی خبر ملی تو وہ بھی راستہ بدل کر ملک الصالح سے عہد شکنی کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔ 
اب تینوں مسلمان فوجوں نے مل کر ایوبی پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ ایوبی نے پھر بہترین جنگی چال چلی اور ان فوجوں کو حلب سے کچھ دور ایک پہاڑی سلسلہ میں لا کر لڑانے کا فیصلہ کیا۔ ایوبی نے اپنی فوج کو اس پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ کے باہر خیمہ زن کر دیا۔ جب حملہ ہوا تو ایوبی کی فوج حملہ آور فوجوں کو پھنسا کر پہاڑی درے میں لے آئی جہاں دائیں بائیں کی چوٹیوں سے ایوبی کے کمانڈوز نے ان پر آگ کی ہانڈیاں برسائیں اور فتح اپنے نام کی۔ حملہ آور فوجوں میں سے حلب کی ایک ریزرو فوج نے پہاڑی سلسلہ کے دائیں جانب سے عین اس وقت حملہ کر دیا جب پہلے سے حملہ آور فوج پہاڑی درے میں آتشی تیروں اور ہانڈیوں کی زد میں تھی۔ ایوبی نے جنگ کی پلاننگ کے وقت اس طرف سے حملہ کے پہلو پر غور تو کیا تھا لیکن فوج کی کمی کے باعث وہ اس کے بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ یہ حملہ جیتی ہوئی بازی کو شکست میں بدل دینے کے لیے کافی تھا۔ لیکن عین اسی وقت 500 گھڑ سواروں کا دستہ کہیں سے مدد کو آن پہنچا۔ جس میں 400 خواتین تھیں اور 100 مرد۔ ایوبی جو کہ قوم کی بیٹیوں کو میدان جنگ میں لڑانا معیوب سمجھتا تھا اسنے انہیں جب واپس پلٹنے کو کہا تھا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ایک مرد نے ایوبی کو ایک خط دیا جو زنگی کی بیوہ کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میرے بھائی ایوبی میں جانتی ہوں کہ تم بیٹیوں کو میدان جنگ میں لے جانے کے حق میں نہیں لیکن اگر تم نے انہیں واپس بھیجا تو دمشق کے مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ ان کے جذبہ جہاد کی قدر کریں۔ 
یوں ایوبی نے انہیں ساتھ لڑنے کی اجازت دی اور دائیں جانب سے حملہ آور حلب کی فوج پر ان 400 خواتین مجاہد بہنوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور فاتح ٹھہرا۔ اسی جنگ کے بعد ایوبی نے اپنے کزن سیف اللَّہ جو کہ میدان جنگ سے فرار ہو چکا تھا، کو خط لکھا جس میں اس نے یہ جملہ بھی لکھا ''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''۔ وجہ یہ تھی کہ فتح کے بعد سیف اللَّہ اور ہرن کے قعلہ داروں کے خیموں سے سینکڑوں رقاصائیں اور خوبصورت پرندے ملے تھے۔ 
امت کے غداروں سے لڑنے کے بعد ایوبی نے فلسطین کا رخ کیا اور جناب عمر (رض) کے بعد واحد امیر بنا جو بیت المقدس کا فاتح ٹھہرا۔ آج بھی بیت المقدس کسی ایوبی کی راہ تکتا ہو گا۔ لیکن اب امت

میں ایک بھی ایوبی نہیں۔ جبکہ ملک الصالح اور سیف اللَّہ جیسوں کی بہتات ہے۔ مسلمان نوجوان عورت، شراب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ کہیں بلند عمارتوں کا مقابلہ ہے تو کہیں محلوں میں کھڑی گاڑیوں کی تعداد کا۔ شاید ایوبی کا پیغام آج کے مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ

''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''

مفتی منیب الرحمن

حدیث دل
میں 19سال کی عمر میں 1964ء میں کراچی آیا‘ پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا ۔ اب یہی میرا شہر ہے ‘ تمام شعوری زندگی اسی شہر میں گزری۔مزاج میں ٹھیرائو ہے‘تلوُّن نہیں ہے ‘دسمبر1965ء میں فیڈرل بی ایریا کی جامع مسجد اقصیٰ سے وابستگی ہوئی اور آج بھی قائم ہے ۔ 1973ء میںعلامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری ‘ علامہ جمیل احمد نعیمی ودیگر اکابر علمائے اہلسنت کی رفاقت میں دارالعلوم نعیمیہ قائم کیا اور آج بھی اُسی سے وابستہ ہوں ۔اندازِ گفتار بھی بے ہنگم اوربے تکانہیں ہے‘ نہ ایسا کرنا میرے بس میں ہے۔ میں اپنی قصیدہ خوانی نہیں کر رہا‘بلکہ ایک حقیقت بتا رہا ہوں‘ نماز بھی ٹھیرائو کے ساتھ پڑھتا اور پڑھاتا ہوں ۔ 
میں نے 1961ء میں گورنمنٹ ہائی سکول اوگی سے میٹرک کیا‘ اُس دور میں وہاں آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ ہم نے پہاڑی علاقے میں پرائمری سے میٹرک تک پانچ میل روزانہ پیدل چل کرپڑھا‘ میٹرک کرنے تک بجلی نہیں دیکھی تھی‘ صرف فزکس کی کتابوں میں اُس کی بابت پڑھتے تھے ‘مشاہدہ نہیں تھا۔خاندانی پسِ منظر الحمد للہ علمی ہے ‘ آج بھی ہمارے خاندان میں اعلیٰ تعلیم کا تناسب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قابلِ رشک ہے ۔ سکول کے ساتھ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ‘ کچھ اسباق اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے عہد کے بہت بڑے عالم دادا جان سے پڑھے ‘ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔چونکہ اچھی بات کو سیکھنامزاج میں تھا ‘ اس لیے کراچی میں استاذِ مکرّم علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری مرحوم کی رفاقت میں تلفظ کی اصلاح ہوئی اور اچھے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر لکھنے کا سلیقہ پیدا ہوا‘ اب بھی اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے‘ غالب نے کہا ہے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے 
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا 
ضمناً بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم مسلّمہ طور پر ایک انتہائی قابل اور ممتاز سکالر تھے ‘ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر تھے ‘ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہیں وزیرِ مذہبی امور بنایا ۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی طرف سے نمائندگی کے سبب مختلف اجلاسوں میں اُن سے واسطہ پڑا ‘ 2001ء میں مجھے بتائے اور اعتماد میں لیے بغیر انہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کا چیئرمین بنادیا‘ اس کا علم مجھے نوٹیفکیشن کے بعد ہوا‘ اُن کی معیت میں چند علما کے ہمراہ قزاقستان کا تاریخی دورہ بھی کرنے کا موقع ملا ‘اس دورے میں چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرُمچی میں ایک دن قیام کا موقع ملا ‘وہاں کا ایک سرکاری مذہبی تعلیمی ادارہ بھی دیکھا ‘ علامہ اقبال نے کہاہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
کاشغر کا علاقہ یہی ہے‘ یہاں ترکی النسل ایغور مسلمان رہتے ہیں‘ مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو نمازیوں کے لیے پگڑیاں ‘ تسبیحیں اور ٹوپیاں بھی رکھی ہوئی تھیں ۔ترکی میں تو مصطفی کمال اتاترک نے ازراہِ عِناد ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن میں ڈھال دیا‘ حروف والفاظ کی ہیئت اور تلفظ ایسا رکھا کہ عربی ‘فارسی وانگریزی دان کے لیے صحیح تلفظ مشکل ہوگیا ‘ اصل مقصد اسلامی علامات اور ماضی سے رشتہ توڑنا تھا‘ محمد اور احمد کا تلفظ بالترتیب مَہْمَتْ اور اَہْمَتْ ہوگیا‘وغیرہ۔ اُرمچی میں بازار میں چکر لگاتے ہوئے دکانوں کے بورڈدیکھے ‘ وہ عربی فارسی رسم الخط میں تھے اوربآسانی سمجھ میں آرہے تھے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر آج ترکی کو واپس اپنے اصل رسم الخط کی طرف لایا جائے تو اُن کے اور ہمارے درمیان تفاہم میں دشواری نہیں ہوگی اور ہمیں ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔یہ ایک المیہ ہے کہ جدید انگلش میڈیم سکولوں کی وجہ سے ہماری نئی نسل اُردو سے دور ہوتی جارہی ہے ‘اگر یہی چلن رہا تو بیس پچیس سال بعد اردو اخبارات اور کتابیں پڑھنا اور سمجھنا نئی نسل کے لیے دشوار ہوجائے گا۔ اسی لیے میں نے نیشنل ٹاسک فورس اور نیشنل کریکولم کونسل کے اجلاسوں میں کہا تھا کہ اَشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ''پاکستانی ساختہ‘‘ نسل تیار نہیں ہورہی ‘یہ چوں چوں کا مُرَبَّہ اور اس محاورے کا مصداق ہے: ''کوا چلاہَنس کی چال ‘اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔
6ستمبر1965ء کو جب ریڈیو پاکستان سے اعلان ہواکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے ‘تو ایک منٹ کے توقُّف کے بغیر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں تعلیم معطل کر کے آیتِ کریمہ پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ‘ جس میں تمام اساتذہ کرام اور طلبہ شامل تھے ‘ ادارے کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری نے کہا: ہندوستان نے ہمارے قَلب (لاہور)پر حملہ کیا ہے۔ مسجدوں میں گڑگڑاکر دعائیں مانگی جارہی تھیں ‘ فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جارہی تھی‘ لوگ حکومت کے ساتھ تَن مَن دَھن سے تعاون کر رہے تھے ‘ نہ کوئی ہلچل مچی ‘ نہ کہرام بپا ہوا ‘ نہ لوگ کراچی سے بستر بوریا اٹھاکر اپنے علاقوں کو روانہ ہوئے‘ نہ مہنگائی کا سیلاب آیا ‘ نہ اَشیائے صَرف کی قلت ہوئی ‘نہ راشن کے لیے لائنیں لگیں‘الغرض پورا نظامِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہا ۔ راتوں کو مکمل بلیک آئوٹ ہوتا اور دن میں زندگی معمول کے مطابق جاری وساری رہتی ۔ اُس وقت پاکستانی ایک متحد ‘مضبوط اور مُستَحکم قوم کا منظر پیش کر رہے تھے ‘ہر ایک نے اسے اپنے دل وجان پر حملہ محسوس کیا ‘ اُسی موقع پر رئیس امروہوی نے جنگی نغمہ لکھا تھا:
خطّۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
شہریوں کو ‘ غازیوں کو ‘ شہسواروں کو سلام
رات کو سب لوگ ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھ جاتے ‘ شکیل احمد مرحوم اتنے جوش وخروش سے خبریں پڑھتے ‘ جیسے وہ دشمن کے مقابل مورچے میں بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہوں۔ اس وقت پوری قوم کا ایک ایک فرد اس جنگ کا حصہ تھا‘ وطن کے لیے مر مٹنے کو تیار تھا۔ پھر ہم نے 1971ء کی جنگ دیکھی ‘وہی ملک وقوم ‘ لیکن 1965ء والا والہانہ جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔ کراچی ڈاکیارڈ میں ہفتہ بھرآگ کے شعلے اور دھویں کے مرغُولے بلند ہورہے تھے ‘ لیکن قوم میں ایک لا تعلقی سی تھی۔ 16دسمبر 1971ء کا المیہ قوم نے خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا‘ کئی لوگوں نے بعض مناظر دیکھ کر اپنے ریڈیو اور ٹی وی سیٹ توڑ دیے‘ بڑے جلوس اور ریلیاں بھی نہیں نکلیں ‘ ایک بے حسی ‘پژمردگی اور اضمحلال طاری رہا۔
اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی غیر متنازع نہیں رہے ‘ لیکن اُن کے کریڈٹ پر آج بھی بعض نمایاں کارنامے موجود ہیں ‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کی تشکیل‘ جس پر نواب خیر بخش مری کے علاوہ اُس وقت کے تمام ارکانِ اسمبلی کے دستخط ثبت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قوم کو پھرحوصلہ دیا اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی شروعات کیں‘ جسے بعد میں تمام حکومتوں نے آگے بڑھایااور بالآخر1998ء میں پاکستان چھ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ نائن الیون کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فوجیوں کو ہدایت تھی کہ یونیفارم پہن کر کنٹوٹمنٹ سے باہر نہ آئیں ۔ پھر 2012ء سے 2018ء کے درمیان جب آپریشن راہِ نجات ‘ضربِ عَضب اورردُّ الفساد شروع ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں ایک بار پھر فوج کی محبت جاگ اٹھی ‘فوج ملک کے لیے قربانیاں دے رہی تھی اور قوم اس کی قدر دان تھی۔غلطی کس نے کی ‘ کہاںکی ‘ حکمتِ عملی اور تدبیر وفراست کا فقدان کہاں تھا ‘ قوم ان تفصیلات میں جائے بغیر فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی ‘ یعنی ایک بار پھر وحدت کی تصویر نظر آنے لگی ۔ یہ سارا پسِ منظر میں نے اس لیے لکھا ہے کہ گزشتہ عشروں میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ‘چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر سب لوگ مجھے دعا کے لیے متوجہ کرتے اور ہم پاکستان کی سالمیت اور فوج کے حق میں دل وجان سے دعائیں مانگتے۔
میں رمضان مبارک میں اپنی مسجد سے متصل مکان میں آجاتا ہوں‘ یہاں میں دسمبر1965ء سے 2002ء تک رہا‘ بعد میں اپنے مکان میں منتقل ہوگیا ۔چونکہ رمضان مبارک میں مجھے صبح وشام درس دینا ہوتاہے‘ لوگ مسائل کے لیے رجوع کرتے ہیں‘ اس لیے میں وہاں منتقل ہوجاتا ہوں‘ یہاں تیسری نسل چل رہی ہے جن کے درمیان میں نے اپنی زندگی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ گزارا ہے ‘ان کے ساتھ ہمیشہ محبت واحترام کا رشتہ قائم رہااور میں نے اُن میں دین اور اہلِ دین کے لیے احترام پایا ‘میرا ادارہ اور مسجد فیڈرل بی ایریا میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ہیں ۔ کئی جذباتی دور گزرے‘ میں اپنے مزاج کے مطابق دین کے حوالے سے حالات کی بابت کلمۂ حق بیان کرتا رہا اور انتہائی جذباتیت کے ماحول میں بھی نوجوانوں سمیت لوگ مجھے برداشت کرتے رہے ۔
سوجب میں ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کوعملی تجربے کی روشنی میں بتاتا ہوںکہ الطاف حسین کا دور اہلِ کراچی کے لیے ایک ابتلا کا دور تھا ‘بہت سے لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے ‘اپنے پرائے کی تمیز اٹھ گئی ‘بہت سے ناگفتہ بہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ‘ بے انتہا جانی نقصان ہوا ‘لسانی عصبیت اپنے جوبن پر تھی‘ اس کے باوجود بحیثیتِ مجموعی اہلِ کراچی کو میں نے ہمیشہ دین کے قریب اور اہلِ دین سے محبت کرنے والا پایا۔لبرل حضرات تحریکِ پاکستان کی جو بھی تعبیریں بیان کریں ‘ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں ‘ان میں مشرقی پنجاب کے مہاجرین بھی شامل ہیں‘ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ تحریکِ پاکستان اسلام کے نام پر بپا ہوئی تھی ‘ لوگوں نے اسلام کے نام پر ہی اس کی حمایت کی ‘اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان سے کبھی مستفید نہ ہوسکے‘ اُن کا بھی اہلِ پاکستان پر احسان ہے ‘ سو اہلِ کراچی کی اسلام اورپاکستان کے ساتھ محبت شک وشبہے سے بالاتر ہے ‘ انہیں اسی نظر سے دیکھا جائے۔ 
میں رمضان میں جوارِ مسجد میں رہنے کی وجہ سے ٹیلی ویژن بالکل نہیں دیکھتا‘ بس صرف صبح کے اخبارات میں سرسری خبریں دیکھ لیتا ہوں ۔ جب میں نے داتادربار لاہور ‘کوئٹہ اور گوادر کے واقعات کے بارے میں صبح کے اخبار میں پڑھاتو مجھے حیرت ہوئی کہ شام کو نہ مسجد میں کسی نے ان کا ذکر کیا‘ نہ دعا کے لیے کہا۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی مجھے گھائل کرگئی کہ آخر دلوں کی یہ کیفیت اوراچانک کایا پلٹ کیسے ہوگئی ۔ ہمارے نظام میں کہیں کوئی بے تدبیری تو نہیں ہوگئی‘ بس یہی سوچ مجھے پریشان کر رہی ہے‘ سوچا اپنے قارئین کو اس الجھن میں شریک کرلوں ۔
مفتی منیب الرحمان صاحب

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی "کوفہ سے مدینے تک"

#داستان
"کوفہ سے مدینے تک"
  مولانا م نعمانی کا سفر شہادت
  تحریر 
محمد اسرار الحق مد نی چیمہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
 4 فروری کو علامہ خادم رضوی صاحب کی اے  ٹی سی میں پیشی کے بعد چند ساتھی وکلاء کے ہمراہ  کریک ڈاؤن میں زخمی ہو کر اسی حالت میں جیل میں دو ماہ گزارنے والے بزرگ عالم دین 
مولانا منیر نعمانی
 کی عیادت کے لیے لیے قریبی نجی ہسپتال حاضر ہوئے ہوئے جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت ڈاکٹر  مرہم پٹی کر رہے تھے مرہم پٹی سے فراغت کے بعد مولانا نے ہنستے مسکراتے مکمل داستان  ظلم سنائ, داستان انہی کے الفاظ میں حاضر خدمت ہے 
 مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے وقت ہمارا خاندان دو آرا میں منقسم ہو گیا ,آدھے افراد پاکستان آنا چاہتے تھے جبکہ باقی لوگ اپنی جنم بھومی اور وطن کی محبت میں مقبوضہ کشمیر کو ترجیح دے رہے تھے  میرے والد کے ایک فقرے نے  سارے گھر کو ہجرت پر متفق کردیا , انہوں نے فرمایا
" انڈیا ہمارے لیے کوفہ ہے اور پاکستان مدینہ" 
کوفہ  میں ہماری جان مال عزت اور ایمان کو خطرہ ہے 
 مدینے میں ہمارا سب کچھ محفوظ ہوگا 
پاکستان پہنچ  کر میں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے درس نظامی کیا ,گریجویشن کی اور آزاد کشمیر میں بطور جج قاضی تعینات ہوا ,
 اسی خوشی میں مرشد کریم کو ملنے پہنچا  تو انہوں نے فرمایا یا تجھے اللہ کا دین اس لیے نہیں پڑھایا تھا تا کہ تو سرکاری ٹکڑوں پہ پلے 
" جا اور جاکے کوٹ عبدالمالک لاہور کی جامع مسجد میں مولوی بن کے دین کی خدمت کر" 
 میں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیا اور پچھلے چالیس سال سے کوٹ عبدالمالک کی اسی مسجد میں دین متین کی خدمت میں مصروف ہوں 
 ایک رات اچانک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے مسجد کا محاصرہ کر لیا کیا میں نے اہلکاروں کو بتایا کہ میرا کسی سیاسی جماعت اور کسی احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے ہے اور نہ میں نے آج تک  کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا ہے ہے لیکن انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا 
پولیس مجھے لے کر جیسے ہی باہر نکلی
 محلے کے نوجوانوں نے مزاحمت شروع کر دی 
عورتیں بچے اور بوڑھے گلیوں میں نکل آئے آئے
 اہلکاروں نے سیدھا فائر کرنے شروع کر دیے  جس سے دو جوان شہید ہو گئے گئے شہادتوں کے باوجود مزاحمت ختم نہ ہوئی تو اہلکار مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلے لے
 میں واپس اپنے حجرے میں آگیا یا دریں اثناء اہلکاروں نے عقبی راستہ استعمال کرتے ہوئے مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا  اور مجھے جوتے بھی نہ پہننے دیے  شوگر کی وجہ سے میرے پاؤں سن رہے ہیں
 اسی حالت میں مجھے موٹر سائیکل پر لاد کے تھانے لے جایا گیا جب وہاں جا کر مجھے اترنے کا کہا گیا تو پتہ چلا کہ میرے پاؤں کا تلوا موٹر سائیکل کے سائلنسر کے ساتھ چپک گیا ہے ہے اہلکاروں نے میرا پاؤں کھینچ کر جدا کیا تو ہڈیوں تک پاؤں کا تلوا اس کے ساتھ رہ گیا 
اسی حالت میں مجھے دو ماہ جیل میں رکھا گیا 
آج رہائی ملی ہے تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ گینگرین پھیل گئی ہے پاؤں کاٹنا پڑے گا یہاں تک بول کے سر جھکا کے خاموش ہوگئے گئے تھوڑی دیر بعد لمبی سرد آہ کھینچیتے ہوئے سر اٹھایا اور بولے 
" میں نے یہ ساری تکلیف آقا کے نام پر ہنستے مسکراتے برداشت کی " لیکن میری والدہ نے آج جب مجھے فون کرکے ایک جملہ کہا ہاں تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے گئے انہوں نے فرمایا بیٹا تمہارا باپ تو کہتا تھا کہ
 انڈیا کوفہ ہے اور
 پاکستان مدینہ
  اتنا ظلم تو انڈین سیکورٹی فورسز نے تمہارے باپ نے نہیں کیا تھا جو نام نہاد ریاست مدینہ کے اہلکاروں نے تمہارے ساتھ کیا ہے
 قصہ مختصر وہ زہر پھیلتا گیا پہلے پاؤں کاٹا 
پھر پوری ٹانگ
 اور آج زہر پورے جسم میں پھیلنے کے باعث
 مولانا شہید ہو گئے 
 میں سوچتا ہوں جب آپ کا جسد خاکی گھر پہنچا ہوگا تواس ماں نے اپنے بیٹے کی لاش پر پھر یہی فقرہ دہرا کے عدالتی نظام اور ریاستی جبر پر لعنت بھیجی ہو گی
 اور ہر غیرت مند کو کوفے سے مدینے تک کے اس سفر کے نظریے پر نظرثانی پر مجبور کیا ہوگا 
 یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
  یہ وہی اہلکار ہے ہے وزیرستان میں جن کے سر کاٹ کے ان سے فٹبال کے جاتا تھا 
اور ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے حق میں جلوس نکالتے تھے جس کے نتیجے میں ہمی
 خود کش حملوں
 کا سامنا ہوا اور ہمارے قائدین اور کارکنان جعلی ریاست مدینہ پر قربان ہوگئے ہائے افسوس ہمیں اس وقت یہ معلوم ہوتا کہ یہ ریاست صرف عالمی شیطانی طاقتوں کی ایک اعلی کار ہے صرف ایک آلہ کار تو ہم ان کی خاطر اپنی جان کبھی قربان نہ کرتے
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
 اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی

"پاکستانی ادارے زندہ باد"
"چند seconds کی توجہ چاہوں گا"

    یہ زیر نظر سُنَّت رسول ﷺ سے مزین چہرہ کوٹ عبد المالک سے تعلق رکھنے والے حضرت، علامہ منیر احند نعمانی کا پاؤں ہے.... 

   23 نومبر 2018 کی رات دیگر 50 ہزار علماءاسلام کی طرح (بامطابق اخبارات وجرائد) انہیں بھی ملک پاکستان کے ایک حصہ سے گرفتار کیا گیا، 2 موٹر-سائیکل سوار اہلکاران نے انہیں ایک سَڑَک سے گزرتے ہوئے آن دبوچا اور   جیسی ان کی تربیت تھی گریبان سے کھینچا اور اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر ہی ٹانگ لیا، مولانا Diabetic patient (شوگَر کے مریض) تھے پاؤں سُن پڑ گیا اور silencer پر سِرَک گیا، سُن پڑنے کی وجہ سے مولانا کو بھی معلوم نہ پڑا اور وہ دو بدبخت پولیس اہلکار؛ تو ان کی تعریف میں الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوں،،، قصہ مختصر علامہ صاحب کا پاؤں  گرم silencer ہونے کی وجہ سے جلتا جلتا، سائلنسر کے ساتھ چِپَک گیا،،، تھانے پہنچبے پَر جَب پاؤں silencer کے ساتھ گلی ہوئی رَبَڑ کی طرح چمٹا ہوا دیکھا تو بدبختوں نے بجائے کسی first aid وغیرہ کے پاؤں کو بے دَردی سے کھینچ کر silencer سے الَگ کیا اور اس کے بعد اسی طرح without giving any aid  حوالات میں چھوڑ دیا، جیلیں تو پہلے سے ہی علماء سے بھری پڑیں تھیں اور جگہ باقی نہ تھی (ورنہ شاید جیل اہلکاران ہی medical aid محیا کر دیتے) ڈھائی 2.5  مہینے تَک وہیں اور گلے ہوئے پاؤں کے ساتھ حوالات میں رکھا اس دوران ان کے گھر والوں کو یہی معلوم تھا کہ یا تو علامہ صاحب اغوا ہو گئے ہیں یا پھر ایجنسیوں کی جانب سے نامعلوم مقام پَر منتقل ہیں( Actually Missing Person  ہو گئے ہیں) اگر کوئی گھر والا ان کے پیچھے پتا لینے کو جائے گا تو وہ بھی اسی طرح غائب ہو جائے گا تو بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے،،،،، ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد وکلاء نے کچھ تگودو کی اور معاملات ہوئے اور حالات معمول پر آنے لگے تو معلوم پڑا کے علامہ صاحب تو تھانے کے حوالات میں تھے پھر کچھ وکلاء نے تھانے جا کر ایس ایچ او صاحب کے ساتھ منہ ماری کی شدید جھڑپ ہوئی اور اس طرح اس نے زور میں آکر علامہ صاحب کو عدالت پیش کیا گیا ورنہ بامطابق تھانےدار ان کو  اعلیٰ Orders تھے،،، خیر.... پھر عدالت میں وکلاء نے انہیں جوڈیشل کروایا اور اس طرح محترم جیل حکام کے حوالے ہوئے اور ان کا علاج کی شروعات کچھ ہوں ہوئی کہ “ان کا پاؤں کاٹنا پڑا“ اور ابھی جیل میں ہی تھے کہ پھر "مکمل ٹانگ کاٹنی پڑی" اور اس کے بعد تقریباً 3 سے 4 ماہ گزرنے کے بعد جج صاحب کو تھوڑا تَرس آیا اور انہیں رہائی ملی، رہائی بھی کیا کہ پہلے ہی علامہ صاحب ہسپتال میں موجود تھے بَس اب ان کا دوسرا پاؤں ھتھکڑی سے نکل گیا تھا، اس کے بعد تکلیف بڑھی تو ان کا دوسرا پاؤں اور پھر مکمل ٹانگ کَٹنے کے مراحل میں رہی اور.......

 آج ٹھیک اس وقعے کے چھ سات ماہ بعد تکلیفوں سے گُزَر وہ قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں❗
ان کا جنازہ آج شام عصر کی نماز کے بعد کوٹ عبد المالک میں ادا کی جائیگی!

 سوال یہ ہے کہ
کہاں ہیں انسانیت کا راگ آلاپنے والے؟ (Humanists)؟! یا "داڑھی والے" آپ کے حقوق العباد کی پیمانے پر نہیں اتے؟
اور دوسرا سوال میرا "اربابِ اختیار" سے ہے کہ
کیا اتنا سَب کچھ کرنے کے بعد آپ یہ سَب کانٹ پیمرا کے ذریعے لوگوں کے سامنے (میڈیا پر آنے) سے بھی روکیں گے کہ مجرموں کو سَزا دینی پڑ جائے گی،،،
 تو.........  اس کے بعد آپ اس شخص کے پیاروں(بھائی، بچوں عزیز واقارب) سے یہ توقع کریں گے کہ یہ

“پاکستان پولیس زندہ باد" "پاکستانی ادارے زندہ باد"  کے نعرے لگائیں؟!

پاکستانی قانون کو سلام ٹھوکیں گے؟!

معذرَت کے ساتھ اتنا اندھا تو میں بھی نہیں ہوں کہ اس طرح  executive positions پر براجمان کالی بھیڑروں کے ذاتی مفاد کے پیچھے ملک کا نام رکھ کر قربانیاں دی جائیں!
کاپی
(اَز اِبن إِسماعيل شَامیٌ)

غازی محمد یوسف قادری صاحب

غازی محمد یوسف قادری صاحب کی طرف سے اصغر کزاب کو واصل جہنم کرنے کی کوشش پر 6 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں  
غازی محمد یوسف قادری صاحب کون ہیں اور اصغر کزاب ملعون کون ہے کیا تفصیلات ہیں اس واقعہ کی یہ ساری کہانی محمد عثمان صدیقی صاحب کے الفاظ میں تح تحریر کر رہا ہوں 
از محمد عثمان صدیقی
میڈیا ریسرچ اینالسٹ
23 جنوری 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی جناب محمد نوید اقبال نے برطانوی نژاد جھوٹے مدعی نبوت اور گستاخ رسول اصغر کذاب کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی یہ کیس کیا تھا آئیں ھم آپکو بتاتے ھیں 
۔اصغر کذاب برطانیہ کے شہر ایڈن برگ اسکارٹ لینڈ
 Edinburgh Scotland
 کا رہائشی ہے۔ چند سال پہلے اُس نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی۔ تفصیلات کے مطابق ستمبر 2010 
میں راول پنڈی کے پوش ایریا گلزار قائد سے ملحق ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی برطانوی نژاد اصغر کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ وہ خود کو ”محمد رسول اللہ“ کہتا ۔(نعوذ باللہ) اس سلسلہ میں اُس نے باقاعدہ اپنے ویزیٹنگ کارڈ اور لیٹر پیڈ چھپوا رکھے تھے۔
 22 ستمبر 2010ء کو تھانہ صادق آباد پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور ایف آئی آر نمبر 842/10 کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اُسے صادق آباد سے گرفتار کر لیا۔(گرفتاری میں الحمدللہ راقم کا بھی کردارتھا مکمل واقعہ تحریر میں آگے پڑھئے)
دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ اللہ کا رسول (نعوذ باللہ) ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اُس کے مضافات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جتنے بھی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بنے اور لگے ہیں۔ پولیس نے ملزم کے اس اعترافی بیان کی باقاعدہ ایک ویڈیو بنوائی، تا کہ وہ عدالت میں اپنے اس بیان سے منحرف نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ کا چالان مکمل کر کے ملزم کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ ملزم کی طرف سے ابتدا میں کئی وکلاء پیش ہوئے، جن میں پی پی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کی بیٹی بیرسٹر سارہ بلال پیش پیش تھی۔ سارہ بلال نے کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ جج صاحب جناب جناب نوید اقبال سے نہایت بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا، جس پر انہوں نے بے حد روا داری اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ مقدمہ کو 3سال تک غیر ضروری طوالت دینے، جج صاحب کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے، اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ڈالرائزڈ این جی اوز کے بے بنیاد واویلا کرنے اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کے کئی منفی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ عدالت میں ملزم کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وہ پاگل پن کی بیماریParanoid Schizophrenia کا مریض ہے۔ اس پر محترم جج صاحب نے ملزم کے دماغی معائنہ کے لیے ایک بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا،جس پر ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے ملزم کا مکمل طبی معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ میڈیکل بورڈ نے ملزم کی ذہنی حالت بالکل تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُسے ایک صحت مند نارمل شخص قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش ایریاز میں ملزم نے کروڑوں روپے کی مہنگی ترین چھے کوٹھیاں خریدی ہیں، جن کی رجسٹریاں باقاعدہ اُس کے نام ہیں۔ یہاں تو اُس کی نام نہاد بیماری نے کوئی غلطی نہیں کی۔ 
ملزم کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے اُس کا پاگل پن ثابت ہو۔ لیکن جب شان رسالت میں توہین کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے ملزم کو پاگل پن کی بیماری کا شکار قرار دے کر اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کی ویڈیو طلب کی تو پتا چلا کہ متنازع ویڈیو ریکارڈ سے غائب ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اس متنازع ویڈیو کا سراغ ملا اور ”اوپر“ سے حکم آیا کہ یہ ویڈیو عدالت کے علاوہ کہیں استعمال نہ ہو گی، کیوں کہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
اس کیس کی سب سے بڑی خوبی اس کی غیر جانب دارانہ اور شفاف ترین تفتیش ہے جو انتہائی ایمان دارانہ شہرت کے حامل پولیس آفیسر جناب زراعت کیانی ایس پی نے کی۔ قانون توہین رسالت کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمہ کی تفتیش ایس ایچ او وغیرہ نہ کرے، بلکہ ایس پی کے عہدہ کا حامل آفیسر اس کی تفتیش کرے۔ مشرف دور میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اس قانون کے تحت درج کیے گئے ہر مقدمہ کی تفتیش ایس پی کے عہدہ کے برابر پولیس آفیسر کرتا ہے۔ چناں چہ اس کیس کی تفتیش بھی ایک ایس پی نے کی اور اپنی تفتیش میں انہوں نے ملزم اصغر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا۔ اس سب کے بعد پروپیگنڈا کیا جا تارھا کہ مقدمہ ھی غلط درج ہوا۔ 
22 جنوری 2014ء کو ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے جج صاحب جناب نوید اقبال سے درخواست کی کہ اُسے اعتراف جرم کرنے پر کم سے کم سزا سنائی جائے۔ جج صاحب نے ملزم سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ بات ہوش و حواس میں کہہ رہے ہیں؟ ملزم نے کہا جی سر! میں یہ سب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ اس پر جج صاحب نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا یہ اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر دے۔ اس پر ملزم اصغر کذاب نے عدالت کے روبرو اپنے رسول ہونے کا اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر کے اُس پر اپنے دستخط بھی ثبت کر دئیے۔ جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو گواہ بناتے ہوئے اُس کے دستخط بھی اس بیان پر کروا لیے۔ بعد ازاں جج صاحب نے رائٹنگ ایکسپرٹ سے ان کے دستخط کے اصل ہونے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ چناں چہ 23 جنوری 2014ء کو جج صاحب نے فریقین کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد شام 4 بجے اڈیالہ جیل میں ملزم کو *سزائے موت* دینے کا حکم سنایا۔ اس کے چند دن بعد ملزم کے وکلاء نے اس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 
مسلمانوں کی طرف سے اس اہم اور نازک کیس کی پیروی ماہر قانون، مجاہد ختم نبوت پاکستان سنی تحریک کی جانب سے نامزد کردہ معروف سنی وکیل جناب راجہ شجاع الرحمن نے کی۔(آپ بیرون ملک سے لا کی تعلیم مکمل کر کے راولپنڈی میں وکالت کر رھے ھیں ناموس رسالت یا دین و مسلک سے متعلق کیسز کی بڑی محبت، غیرت ایمانی و  بڑی جانفشانی سے پیروی کرتے ھیں آپ غازی ممتاز قادری شہید کے وکیل بھی رھے ھیں) انہوں نے اس اصغرکذاب کیس میں بھی مضبوط دلائل دئیے،
ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے بے پناہ دباؤ، سفارشوں، دھمکیوں، وکلائے صفائی کے غیر اخلاقی رویوں کے باوجود انصاف اور میرٹ کا بول بالا کرتے ہوئے مبنی بر انصاف، اصغر کذاب کے لیے سزاۓ موت کا تاریخی فیصلہ صادر فرمایا۔ بین الاقوامی میڈیا کے علاوہ عیسائی اور قادیانی لابی اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرتے رھے ھیں، بلکہ محترم جج محمد نوید اقبال صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا رھا
مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے کیس پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہر پیشی پر برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے ماڈریٹ اور بااثر خواتین کی ایک کثیر تعداد عدالت میں موجود ہوتی اور مقدمہ کی سماعت میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالتی۔ یہاں تک کہ 23نومبر 2012ء کو برطانوی ہائی کمیشن نے کیس میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو خط لکھا، جسے فاضل جج نے کیس کا حصہ بناتے ہوئے سیشن جج کو کوئی دباؤ قبول کیے بغیر سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصغر کذاب کو ضمیر کا قیدی قرار دے کر حکومت پاکستان سے اس کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اصغر کذاب کو حقوقِ انسانی کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات پر کسی ملزم کے خلاف نہ پرچہ درج ہو اور نہ کسی کو سزا دی جائے۔ 
برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیر بارونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ ہم اصغر کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
ایڈن برگ سے رکن پارلیمنٹ شیلا گلمور نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں کہ سزائے موت کے مرتکب برطانوی شہری اصغر کو برطانیہ واپس لایا جائے گا۔ جس کے جواب میں کیمرون نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ وہ اصغر کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نژاد برطانوی شہری کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر وہ شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت پاکستان کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ برطانوی شہری اصغر کو سزاۓ موت سناۓ جانےپر مضطرب ھیں اُمید ہے حکومت پاکستان ہمارے شہری کو رہا کر دے گی۔ اصغر کذاب کو بچانے کے لیے قادیانی اور عیسائی لابی بے حد متحرک رھی
 مغرب میں ملزم کی رہائی کے لیے ایک دستخطی مہم چلائی گئی، جس پر ہزاروں افراد نے دستخط کیے۔ یہ یادداشت اس وقت کے امریکی صدر اوباما سمیت دنیا بھر کے بااثر افراد کو بجھوائی گئی برطانوی قونصلیٹ کی سفارش پر ملزم اصغر کذاب کو جیل میں خصوصی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے موبائل فون، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ سمیت ہوٹل سے کھانا منگوانے کی مکمل سہولیات حاصل ہیں۔ ان واقعات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔اب آتے ھیں اصغر کذاب کی گرفتاری کی تفصیل اور غازی یوسف قادری کے اس معاملے میں کردار پر۔
اصغر کذاب نے ھمارے علاقے صادق آباد راولپنڈی میں غازی ممتاز قادری شہید کی رھائیش گاہ سے قریب ھی ایک پراپرٹی ڈیلر ملک حفیظ اعوان (یہی کیس کے پہلے مدعی ھیں) کے دفتر میں اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس میں اپنے نام کے ساتھ درود (ﷺ) درج تھا یہ بدبخت وزٹنگ کارڈ دے کر آگے نکل گیاپراپرٹی ڈیلر نے اس وقت تو دھیان نہ دیا مگرکچھ ھی دیر بعد جب کارڈ دیکھا تو ارد اردگرد کے تاجروں کو فوری آگاہ کیا اس وقت اصغر کذاب بدبخت تھوڑا ھی آگے پہنچا تھا اس کے پیچھے اسے مارکیٹ کے لوگ پکڑنے کو دوڑے یہ ایک دکان میں داخل ھوا میں راقم (محمد عثمان صدیقی) بھی اُس وقت اسی مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر دوست حافظ عمیر مغل کی موبائل شاپ پر موجود تھا جوں ھی مجھے پتہ چلا میں کچھ دوستوں کو لے کر  موقع پر پہنچ گیا علاقے کے نوجوانان و تاجر حضرات مل کر لبیک یا رسول اللہ ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کررھے تھے اصغر کذاب کو اسی دکان کہ جس میں وہ داخل ھوا تھا ھم نے شٹر گرا کے اندر بند کر دیا تمام بازار میں تشویش پھیل گئی انتہائی تحمل کامظاہرہ کرتےہوئے قریب ھی پولیس سٹیشن رابطہ کرکے اس بدبخت ملعون کی گرفتاری کروا دی (لبرلز ومنہاجیے بتائیں کہ ھم نے قانون پر عمل کیا کہ نہیں ؟)
قارئین آپ کو بتایا گیا کہ اس بدبخت کا تعارف کیا تھا اور اس کے تحفظ کے لیے بیرونی و لادینی طاقتیں کیا کیا ھتھکنڈے استعمال کرتیں رھیں اس سب کو دیکھتے ھوۓ عشاقان رسول میں اضطراب ایک فطری امر تھا یہی سب وجہ بنی غازی یوسف قادری کے جرآت مندانہ عمل کی، جوانہوں نے بڑی زبردست پلاننگ کے ساتھ اڈیالہ جیل میں کیا۔
 اڈیالہ جیل میں اسیر اصغر کذاب کی وجہ سے جیل میں بھی اکثر اشتعال پایا جاتا تھا کئی بار اسے غیور مسلمان قیدیوں سے مار بھی پڑی۔
اب پڑھئے غازی یوسف قادری عطاری صاحب کے حوالے سے معلومات:
غازی یوسف قادری مدظلہ چنیوٹ سے تعلق رکھتے ھیں ”عطاری“ ہیں گھر کے اکیلے کمانے والے فرد ھیں یہ پنجاب پولیس میں بھرتی ھوۓ تو اڈیالہ جیل میں تعینات کیے گئے دوران ڈیوٹی اڈیالہ جیل کی مسجد میں امامت فرماتےاور باقاعدگی سے درس بھی دیتے رھے غازی ممتاز قادری شہید سے بے پناہ محبت فرماتے اکثر غازی ممتاز قادری شہید کے بیرک میں آتے جاتے رھتے۔
انہی دنوں یہ اصغر کذاب بھی اڈیالہ جیل قید تھا ایک دن غازی یوسف قادری باوردی ڈیوٹی پراڈیالہ جیل آتے ھوۓ اپنی جرابوں میں چھوٹی خودکار پسٹل چھپا کر لے آۓ اور اصغر کذاب کے بیرک پہنچ گئے  اس بدبخت کو سامنے بلایا للکار کر اس پر فائر کھول دئیے مگر شومئی قسمت کہ اس کے چند گولیاں لگیں مزید فائر جاری تھے کہ وہ زخمی حالت میں بیرک کے پیچھے باتھ روم والی سائڈ پر بھاگ کھڑا ھوا اس کا بازو اور پیٹ کافی متاثر ھوا غازی یوسف قادری اس کو زندہ چھوڑنے پر ھرگز تیار نہ تھے مگر اس اچانک کاروائی پر جیل عملہ الرٹ ھو گیا اور غازی یوسف قادری کو قابو کر کے گرفتار کر لیا گیا۔
غازی یوسف قادری کو بھی بیرونی دباؤ کی بدولت دوران اسیری بہت مشکل اٹھانی پڑی مگر استقامت کا منارہ بنے رھے۔ دوران اسیری بھی انکا غازی ممتاز قادری شہید سے بڑا رابطہ رھا غازی ممتاز قادری شہید ان سے بڑی محبت فرماتے جب غازی صاحب کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رھا تھا اسی راستے میں غازی یوسف قادری کا بیرک بھی تھا پھانسی کےوقت گزرتے ہوئے غازی یوسف قادری صاحب کے بیرک کو بڑی محبت سے دیکھتے رھے۔یہ عشاقِ صادقین اجازت نہ ملنے کے سبب اس وقت مل نہ سکے
غازی یوسف قادری کیس کی پیروی بڑے احسن انداز میں کی گئی غازی ممتاز قادری شہید کے اھل خانہ بالخصوص غازی صاحب کے بھائی عابد قادری عطاری اور ھمارے دوست جناب زبیر ھارونی بھائی کا بہت کردار ھے۔
غازی یوسف قادری کی رھائی ضمانت کے تحت نومبر سال2017 میں ممکن ہوئی۔یوسف بھائی کی رہائی کی اھم وجہ مضروب اصغر کذاب کی جانب سے کیس کی عدم پیروی ھے۔ کیس میں اسکے وکیل نے پیش ھونا ھی چھوڑ دیا تھا۔ بعد از ضمانت ان کا کیس چلتا رہا جس کا فیصلہ پرسوں سنا دیا گیا ہے غازی یوسف قادری مدظلہ کو 6 سال قید سخت 50 ہزار جرمانہ کی سزا سنادی گئی ہے۔غازی یوسف قادری کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 5 سال سزا حملہ کی اور ایک سال سزا ہتھیار رکھنے کی سنائی گئی ہے ہم اس سزا پر بہت دکھ ہوا ہے مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں اللہ یوسف قادری بھائی کو صحت عافیت والی زندگی عطا فرماۓ۔