Sunday, 16 June 2019

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی "کوفہ سے مدینے تک"

#داستان
"کوفہ سے مدینے تک"
  مولانا م نعمانی کا سفر شہادت
  تحریر 
محمد اسرار الحق مد نی چیمہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
 4 فروری کو علامہ خادم رضوی صاحب کی اے  ٹی سی میں پیشی کے بعد چند ساتھی وکلاء کے ہمراہ  کریک ڈاؤن میں زخمی ہو کر اسی حالت میں جیل میں دو ماہ گزارنے والے بزرگ عالم دین 
مولانا منیر نعمانی
 کی عیادت کے لیے لیے قریبی نجی ہسپتال حاضر ہوئے ہوئے جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت ڈاکٹر  مرہم پٹی کر رہے تھے مرہم پٹی سے فراغت کے بعد مولانا نے ہنستے مسکراتے مکمل داستان  ظلم سنائ, داستان انہی کے الفاظ میں حاضر خدمت ہے 
 مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے وقت ہمارا خاندان دو آرا میں منقسم ہو گیا ,آدھے افراد پاکستان آنا چاہتے تھے جبکہ باقی لوگ اپنی جنم بھومی اور وطن کی محبت میں مقبوضہ کشمیر کو ترجیح دے رہے تھے  میرے والد کے ایک فقرے نے  سارے گھر کو ہجرت پر متفق کردیا , انہوں نے فرمایا
" انڈیا ہمارے لیے کوفہ ہے اور پاکستان مدینہ" 
کوفہ  میں ہماری جان مال عزت اور ایمان کو خطرہ ہے 
 مدینے میں ہمارا سب کچھ محفوظ ہوگا 
پاکستان پہنچ  کر میں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے درس نظامی کیا ,گریجویشن کی اور آزاد کشمیر میں بطور جج قاضی تعینات ہوا ,
 اسی خوشی میں مرشد کریم کو ملنے پہنچا  تو انہوں نے فرمایا یا تجھے اللہ کا دین اس لیے نہیں پڑھایا تھا تا کہ تو سرکاری ٹکڑوں پہ پلے 
" جا اور جاکے کوٹ عبدالمالک لاہور کی جامع مسجد میں مولوی بن کے دین کی خدمت کر" 
 میں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیا اور پچھلے چالیس سال سے کوٹ عبدالمالک کی اسی مسجد میں دین متین کی خدمت میں مصروف ہوں 
 ایک رات اچانک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے مسجد کا محاصرہ کر لیا کیا میں نے اہلکاروں کو بتایا کہ میرا کسی سیاسی جماعت اور کسی احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے ہے اور نہ میں نے آج تک  کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا ہے ہے لیکن انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا 
پولیس مجھے لے کر جیسے ہی باہر نکلی
 محلے کے نوجوانوں نے مزاحمت شروع کر دی 
عورتیں بچے اور بوڑھے گلیوں میں نکل آئے آئے
 اہلکاروں نے سیدھا فائر کرنے شروع کر دیے  جس سے دو جوان شہید ہو گئے گئے شہادتوں کے باوجود مزاحمت ختم نہ ہوئی تو اہلکار مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلے لے
 میں واپس اپنے حجرے میں آگیا یا دریں اثناء اہلکاروں نے عقبی راستہ استعمال کرتے ہوئے مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا  اور مجھے جوتے بھی نہ پہننے دیے  شوگر کی وجہ سے میرے پاؤں سن رہے ہیں
 اسی حالت میں مجھے موٹر سائیکل پر لاد کے تھانے لے جایا گیا جب وہاں جا کر مجھے اترنے کا کہا گیا تو پتہ چلا کہ میرے پاؤں کا تلوا موٹر سائیکل کے سائلنسر کے ساتھ چپک گیا ہے ہے اہلکاروں نے میرا پاؤں کھینچ کر جدا کیا تو ہڈیوں تک پاؤں کا تلوا اس کے ساتھ رہ گیا 
اسی حالت میں مجھے دو ماہ جیل میں رکھا گیا 
آج رہائی ملی ہے تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ گینگرین پھیل گئی ہے پاؤں کاٹنا پڑے گا یہاں تک بول کے سر جھکا کے خاموش ہوگئے گئے تھوڑی دیر بعد لمبی سرد آہ کھینچیتے ہوئے سر اٹھایا اور بولے 
" میں نے یہ ساری تکلیف آقا کے نام پر ہنستے مسکراتے برداشت کی " لیکن میری والدہ نے آج جب مجھے فون کرکے ایک جملہ کہا ہاں تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے گئے انہوں نے فرمایا بیٹا تمہارا باپ تو کہتا تھا کہ
 انڈیا کوفہ ہے اور
 پاکستان مدینہ
  اتنا ظلم تو انڈین سیکورٹی فورسز نے تمہارے باپ نے نہیں کیا تھا جو نام نہاد ریاست مدینہ کے اہلکاروں نے تمہارے ساتھ کیا ہے
 قصہ مختصر وہ زہر پھیلتا گیا پہلے پاؤں کاٹا 
پھر پوری ٹانگ
 اور آج زہر پورے جسم میں پھیلنے کے باعث
 مولانا شہید ہو گئے 
 میں سوچتا ہوں جب آپ کا جسد خاکی گھر پہنچا ہوگا تواس ماں نے اپنے بیٹے کی لاش پر پھر یہی فقرہ دہرا کے عدالتی نظام اور ریاستی جبر پر لعنت بھیجی ہو گی
 اور ہر غیرت مند کو کوفے سے مدینے تک کے اس سفر کے نظریے پر نظرثانی پر مجبور کیا ہوگا 
 یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
  یہ وہی اہلکار ہے ہے وزیرستان میں جن کے سر کاٹ کے ان سے فٹبال کے جاتا تھا 
اور ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے حق میں جلوس نکالتے تھے جس کے نتیجے میں ہمی
 خود کش حملوں
 کا سامنا ہوا اور ہمارے قائدین اور کارکنان جعلی ریاست مدینہ پر قربان ہوگئے ہائے افسوس ہمیں اس وقت یہ معلوم ہوتا کہ یہ ریاست صرف عالمی شیطانی طاقتوں کی ایک اعلی کار ہے صرف ایک آلہ کار تو ہم ان کی خاطر اپنی جان کبھی قربان نہ کرتے
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
 اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی

"پاکستانی ادارے زندہ باد"
"چند seconds کی توجہ چاہوں گا"

    یہ زیر نظر سُنَّت رسول ﷺ سے مزین چہرہ کوٹ عبد المالک سے تعلق رکھنے والے حضرت، علامہ منیر احند نعمانی کا پاؤں ہے.... 

   23 نومبر 2018 کی رات دیگر 50 ہزار علماءاسلام کی طرح (بامطابق اخبارات وجرائد) انہیں بھی ملک پاکستان کے ایک حصہ سے گرفتار کیا گیا، 2 موٹر-سائیکل سوار اہلکاران نے انہیں ایک سَڑَک سے گزرتے ہوئے آن دبوچا اور   جیسی ان کی تربیت تھی گریبان سے کھینچا اور اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر ہی ٹانگ لیا، مولانا Diabetic patient (شوگَر کے مریض) تھے پاؤں سُن پڑ گیا اور silencer پر سِرَک گیا، سُن پڑنے کی وجہ سے مولانا کو بھی معلوم نہ پڑا اور وہ دو بدبخت پولیس اہلکار؛ تو ان کی تعریف میں الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوں،،، قصہ مختصر علامہ صاحب کا پاؤں  گرم silencer ہونے کی وجہ سے جلتا جلتا، سائلنسر کے ساتھ چِپَک گیا،،، تھانے پہنچبے پَر جَب پاؤں silencer کے ساتھ گلی ہوئی رَبَڑ کی طرح چمٹا ہوا دیکھا تو بدبختوں نے بجائے کسی first aid وغیرہ کے پاؤں کو بے دَردی سے کھینچ کر silencer سے الَگ کیا اور اس کے بعد اسی طرح without giving any aid  حوالات میں چھوڑ دیا، جیلیں تو پہلے سے ہی علماء سے بھری پڑیں تھیں اور جگہ باقی نہ تھی (ورنہ شاید جیل اہلکاران ہی medical aid محیا کر دیتے) ڈھائی 2.5  مہینے تَک وہیں اور گلے ہوئے پاؤں کے ساتھ حوالات میں رکھا اس دوران ان کے گھر والوں کو یہی معلوم تھا کہ یا تو علامہ صاحب اغوا ہو گئے ہیں یا پھر ایجنسیوں کی جانب سے نامعلوم مقام پَر منتقل ہیں( Actually Missing Person  ہو گئے ہیں) اگر کوئی گھر والا ان کے پیچھے پتا لینے کو جائے گا تو وہ بھی اسی طرح غائب ہو جائے گا تو بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے،،،،، ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد وکلاء نے کچھ تگودو کی اور معاملات ہوئے اور حالات معمول پر آنے لگے تو معلوم پڑا کے علامہ صاحب تو تھانے کے حوالات میں تھے پھر کچھ وکلاء نے تھانے جا کر ایس ایچ او صاحب کے ساتھ منہ ماری کی شدید جھڑپ ہوئی اور اس طرح اس نے زور میں آکر علامہ صاحب کو عدالت پیش کیا گیا ورنہ بامطابق تھانےدار ان کو  اعلیٰ Orders تھے،،، خیر.... پھر عدالت میں وکلاء نے انہیں جوڈیشل کروایا اور اس طرح محترم جیل حکام کے حوالے ہوئے اور ان کا علاج کی شروعات کچھ ہوں ہوئی کہ “ان کا پاؤں کاٹنا پڑا“ اور ابھی جیل میں ہی تھے کہ پھر "مکمل ٹانگ کاٹنی پڑی" اور اس کے بعد تقریباً 3 سے 4 ماہ گزرنے کے بعد جج صاحب کو تھوڑا تَرس آیا اور انہیں رہائی ملی، رہائی بھی کیا کہ پہلے ہی علامہ صاحب ہسپتال میں موجود تھے بَس اب ان کا دوسرا پاؤں ھتھکڑی سے نکل گیا تھا، اس کے بعد تکلیف بڑھی تو ان کا دوسرا پاؤں اور پھر مکمل ٹانگ کَٹنے کے مراحل میں رہی اور.......

 آج ٹھیک اس وقعے کے چھ سات ماہ بعد تکلیفوں سے گُزَر وہ قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں❗
ان کا جنازہ آج شام عصر کی نماز کے بعد کوٹ عبد المالک میں ادا کی جائیگی!

 سوال یہ ہے کہ
کہاں ہیں انسانیت کا راگ آلاپنے والے؟ (Humanists)؟! یا "داڑھی والے" آپ کے حقوق العباد کی پیمانے پر نہیں اتے؟
اور دوسرا سوال میرا "اربابِ اختیار" سے ہے کہ
کیا اتنا سَب کچھ کرنے کے بعد آپ یہ سَب کانٹ پیمرا کے ذریعے لوگوں کے سامنے (میڈیا پر آنے) سے بھی روکیں گے کہ مجرموں کو سَزا دینی پڑ جائے گی،،،
 تو.........  اس کے بعد آپ اس شخص کے پیاروں(بھائی، بچوں عزیز واقارب) سے یہ توقع کریں گے کہ یہ

“پاکستان پولیس زندہ باد" "پاکستانی ادارے زندہ باد"  کے نعرے لگائیں؟!

پاکستانی قانون کو سلام ٹھوکیں گے؟!

معذرَت کے ساتھ اتنا اندھا تو میں بھی نہیں ہوں کہ اس طرح  executive positions پر براجمان کالی بھیڑروں کے ذاتی مفاد کے پیچھے ملک کا نام رکھ کر قربانیاں دی جائیں!
کاپی
(اَز اِبن إِسماعيل شَامیٌ)

غازی محمد یوسف قادری صاحب

غازی محمد یوسف قادری صاحب کی طرف سے اصغر کزاب کو واصل جہنم کرنے کی کوشش پر 6 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں  
غازی محمد یوسف قادری صاحب کون ہیں اور اصغر کزاب ملعون کون ہے کیا تفصیلات ہیں اس واقعہ کی یہ ساری کہانی محمد عثمان صدیقی صاحب کے الفاظ میں تح تحریر کر رہا ہوں 
از محمد عثمان صدیقی
میڈیا ریسرچ اینالسٹ
23 جنوری 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی جناب محمد نوید اقبال نے برطانوی نژاد جھوٹے مدعی نبوت اور گستاخ رسول اصغر کذاب کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی یہ کیس کیا تھا آئیں ھم آپکو بتاتے ھیں 
۔اصغر کذاب برطانیہ کے شہر ایڈن برگ اسکارٹ لینڈ
 Edinburgh Scotland
 کا رہائشی ہے۔ چند سال پہلے اُس نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی۔ تفصیلات کے مطابق ستمبر 2010 
میں راول پنڈی کے پوش ایریا گلزار قائد سے ملحق ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی برطانوی نژاد اصغر کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ وہ خود کو ”محمد رسول اللہ“ کہتا ۔(نعوذ باللہ) اس سلسلہ میں اُس نے باقاعدہ اپنے ویزیٹنگ کارڈ اور لیٹر پیڈ چھپوا رکھے تھے۔
 22 ستمبر 2010ء کو تھانہ صادق آباد پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور ایف آئی آر نمبر 842/10 کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اُسے صادق آباد سے گرفتار کر لیا۔(گرفتاری میں الحمدللہ راقم کا بھی کردارتھا مکمل واقعہ تحریر میں آگے پڑھئے)
دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ اللہ کا رسول (نعوذ باللہ) ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اُس کے مضافات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جتنے بھی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بنے اور لگے ہیں۔ پولیس نے ملزم کے اس اعترافی بیان کی باقاعدہ ایک ویڈیو بنوائی، تا کہ وہ عدالت میں اپنے اس بیان سے منحرف نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ کا چالان مکمل کر کے ملزم کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ ملزم کی طرف سے ابتدا میں کئی وکلاء پیش ہوئے، جن میں پی پی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کی بیٹی بیرسٹر سارہ بلال پیش پیش تھی۔ سارہ بلال نے کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ جج صاحب جناب جناب نوید اقبال سے نہایت بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا، جس پر انہوں نے بے حد روا داری اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ مقدمہ کو 3سال تک غیر ضروری طوالت دینے، جج صاحب کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے، اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ڈالرائزڈ این جی اوز کے بے بنیاد واویلا کرنے اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کے کئی منفی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ عدالت میں ملزم کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وہ پاگل پن کی بیماریParanoid Schizophrenia کا مریض ہے۔ اس پر محترم جج صاحب نے ملزم کے دماغی معائنہ کے لیے ایک بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا،جس پر ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے ملزم کا مکمل طبی معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ میڈیکل بورڈ نے ملزم کی ذہنی حالت بالکل تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُسے ایک صحت مند نارمل شخص قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش ایریاز میں ملزم نے کروڑوں روپے کی مہنگی ترین چھے کوٹھیاں خریدی ہیں، جن کی رجسٹریاں باقاعدہ اُس کے نام ہیں۔ یہاں تو اُس کی نام نہاد بیماری نے کوئی غلطی نہیں کی۔ 
ملزم کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے اُس کا پاگل پن ثابت ہو۔ لیکن جب شان رسالت میں توہین کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے ملزم کو پاگل پن کی بیماری کا شکار قرار دے کر اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کی ویڈیو طلب کی تو پتا چلا کہ متنازع ویڈیو ریکارڈ سے غائب ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اس متنازع ویڈیو کا سراغ ملا اور ”اوپر“ سے حکم آیا کہ یہ ویڈیو عدالت کے علاوہ کہیں استعمال نہ ہو گی، کیوں کہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
اس کیس کی سب سے بڑی خوبی اس کی غیر جانب دارانہ اور شفاف ترین تفتیش ہے جو انتہائی ایمان دارانہ شہرت کے حامل پولیس آفیسر جناب زراعت کیانی ایس پی نے کی۔ قانون توہین رسالت کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمہ کی تفتیش ایس ایچ او وغیرہ نہ کرے، بلکہ ایس پی کے عہدہ کا حامل آفیسر اس کی تفتیش کرے۔ مشرف دور میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اس قانون کے تحت درج کیے گئے ہر مقدمہ کی تفتیش ایس پی کے عہدہ کے برابر پولیس آفیسر کرتا ہے۔ چناں چہ اس کیس کی تفتیش بھی ایک ایس پی نے کی اور اپنی تفتیش میں انہوں نے ملزم اصغر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا۔ اس سب کے بعد پروپیگنڈا کیا جا تارھا کہ مقدمہ ھی غلط درج ہوا۔ 
22 جنوری 2014ء کو ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے جج صاحب جناب نوید اقبال سے درخواست کی کہ اُسے اعتراف جرم کرنے پر کم سے کم سزا سنائی جائے۔ جج صاحب نے ملزم سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ بات ہوش و حواس میں کہہ رہے ہیں؟ ملزم نے کہا جی سر! میں یہ سب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ اس پر جج صاحب نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا یہ اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر دے۔ اس پر ملزم اصغر کذاب نے عدالت کے روبرو اپنے رسول ہونے کا اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر کے اُس پر اپنے دستخط بھی ثبت کر دئیے۔ جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو گواہ بناتے ہوئے اُس کے دستخط بھی اس بیان پر کروا لیے۔ بعد ازاں جج صاحب نے رائٹنگ ایکسپرٹ سے ان کے دستخط کے اصل ہونے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ چناں چہ 23 جنوری 2014ء کو جج صاحب نے فریقین کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد شام 4 بجے اڈیالہ جیل میں ملزم کو *سزائے موت* دینے کا حکم سنایا۔ اس کے چند دن بعد ملزم کے وکلاء نے اس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 
مسلمانوں کی طرف سے اس اہم اور نازک کیس کی پیروی ماہر قانون، مجاہد ختم نبوت پاکستان سنی تحریک کی جانب سے نامزد کردہ معروف سنی وکیل جناب راجہ شجاع الرحمن نے کی۔(آپ بیرون ملک سے لا کی تعلیم مکمل کر کے راولپنڈی میں وکالت کر رھے ھیں ناموس رسالت یا دین و مسلک سے متعلق کیسز کی بڑی محبت، غیرت ایمانی و  بڑی جانفشانی سے پیروی کرتے ھیں آپ غازی ممتاز قادری شہید کے وکیل بھی رھے ھیں) انہوں نے اس اصغرکذاب کیس میں بھی مضبوط دلائل دئیے،
ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے بے پناہ دباؤ، سفارشوں، دھمکیوں، وکلائے صفائی کے غیر اخلاقی رویوں کے باوجود انصاف اور میرٹ کا بول بالا کرتے ہوئے مبنی بر انصاف، اصغر کذاب کے لیے سزاۓ موت کا تاریخی فیصلہ صادر فرمایا۔ بین الاقوامی میڈیا کے علاوہ عیسائی اور قادیانی لابی اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرتے رھے ھیں، بلکہ محترم جج محمد نوید اقبال صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا رھا
مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے کیس پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہر پیشی پر برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے ماڈریٹ اور بااثر خواتین کی ایک کثیر تعداد عدالت میں موجود ہوتی اور مقدمہ کی سماعت میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالتی۔ یہاں تک کہ 23نومبر 2012ء کو برطانوی ہائی کمیشن نے کیس میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو خط لکھا، جسے فاضل جج نے کیس کا حصہ بناتے ہوئے سیشن جج کو کوئی دباؤ قبول کیے بغیر سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصغر کذاب کو ضمیر کا قیدی قرار دے کر حکومت پاکستان سے اس کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اصغر کذاب کو حقوقِ انسانی کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات پر کسی ملزم کے خلاف نہ پرچہ درج ہو اور نہ کسی کو سزا دی جائے۔ 
برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیر بارونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ ہم اصغر کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
ایڈن برگ سے رکن پارلیمنٹ شیلا گلمور نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں کہ سزائے موت کے مرتکب برطانوی شہری اصغر کو برطانیہ واپس لایا جائے گا۔ جس کے جواب میں کیمرون نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ وہ اصغر کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نژاد برطانوی شہری کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر وہ شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت پاکستان کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ برطانوی شہری اصغر کو سزاۓ موت سناۓ جانےپر مضطرب ھیں اُمید ہے حکومت پاکستان ہمارے شہری کو رہا کر دے گی۔ اصغر کذاب کو بچانے کے لیے قادیانی اور عیسائی لابی بے حد متحرک رھی
 مغرب میں ملزم کی رہائی کے لیے ایک دستخطی مہم چلائی گئی، جس پر ہزاروں افراد نے دستخط کیے۔ یہ یادداشت اس وقت کے امریکی صدر اوباما سمیت دنیا بھر کے بااثر افراد کو بجھوائی گئی برطانوی قونصلیٹ کی سفارش پر ملزم اصغر کذاب کو جیل میں خصوصی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے موبائل فون، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ سمیت ہوٹل سے کھانا منگوانے کی مکمل سہولیات حاصل ہیں۔ ان واقعات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔اب آتے ھیں اصغر کذاب کی گرفتاری کی تفصیل اور غازی یوسف قادری کے اس معاملے میں کردار پر۔
اصغر کذاب نے ھمارے علاقے صادق آباد راولپنڈی میں غازی ممتاز قادری شہید کی رھائیش گاہ سے قریب ھی ایک پراپرٹی ڈیلر ملک حفیظ اعوان (یہی کیس کے پہلے مدعی ھیں) کے دفتر میں اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس میں اپنے نام کے ساتھ درود (ﷺ) درج تھا یہ بدبخت وزٹنگ کارڈ دے کر آگے نکل گیاپراپرٹی ڈیلر نے اس وقت تو دھیان نہ دیا مگرکچھ ھی دیر بعد جب کارڈ دیکھا تو ارد اردگرد کے تاجروں کو فوری آگاہ کیا اس وقت اصغر کذاب بدبخت تھوڑا ھی آگے پہنچا تھا اس کے پیچھے اسے مارکیٹ کے لوگ پکڑنے کو دوڑے یہ ایک دکان میں داخل ھوا میں راقم (محمد عثمان صدیقی) بھی اُس وقت اسی مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر دوست حافظ عمیر مغل کی موبائل شاپ پر موجود تھا جوں ھی مجھے پتہ چلا میں کچھ دوستوں کو لے کر  موقع پر پہنچ گیا علاقے کے نوجوانان و تاجر حضرات مل کر لبیک یا رسول اللہ ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کررھے تھے اصغر کذاب کو اسی دکان کہ جس میں وہ داخل ھوا تھا ھم نے شٹر گرا کے اندر بند کر دیا تمام بازار میں تشویش پھیل گئی انتہائی تحمل کامظاہرہ کرتےہوئے قریب ھی پولیس سٹیشن رابطہ کرکے اس بدبخت ملعون کی گرفتاری کروا دی (لبرلز ومنہاجیے بتائیں کہ ھم نے قانون پر عمل کیا کہ نہیں ؟)
قارئین آپ کو بتایا گیا کہ اس بدبخت کا تعارف کیا تھا اور اس کے تحفظ کے لیے بیرونی و لادینی طاقتیں کیا کیا ھتھکنڈے استعمال کرتیں رھیں اس سب کو دیکھتے ھوۓ عشاقان رسول میں اضطراب ایک فطری امر تھا یہی سب وجہ بنی غازی یوسف قادری کے جرآت مندانہ عمل کی، جوانہوں نے بڑی زبردست پلاننگ کے ساتھ اڈیالہ جیل میں کیا۔
 اڈیالہ جیل میں اسیر اصغر کذاب کی وجہ سے جیل میں بھی اکثر اشتعال پایا جاتا تھا کئی بار اسے غیور مسلمان قیدیوں سے مار بھی پڑی۔
اب پڑھئے غازی یوسف قادری عطاری صاحب کے حوالے سے معلومات:
غازی یوسف قادری مدظلہ چنیوٹ سے تعلق رکھتے ھیں ”عطاری“ ہیں گھر کے اکیلے کمانے والے فرد ھیں یہ پنجاب پولیس میں بھرتی ھوۓ تو اڈیالہ جیل میں تعینات کیے گئے دوران ڈیوٹی اڈیالہ جیل کی مسجد میں امامت فرماتےاور باقاعدگی سے درس بھی دیتے رھے غازی ممتاز قادری شہید سے بے پناہ محبت فرماتے اکثر غازی ممتاز قادری شہید کے بیرک میں آتے جاتے رھتے۔
انہی دنوں یہ اصغر کذاب بھی اڈیالہ جیل قید تھا ایک دن غازی یوسف قادری باوردی ڈیوٹی پراڈیالہ جیل آتے ھوۓ اپنی جرابوں میں چھوٹی خودکار پسٹل چھپا کر لے آۓ اور اصغر کذاب کے بیرک پہنچ گئے  اس بدبخت کو سامنے بلایا للکار کر اس پر فائر کھول دئیے مگر شومئی قسمت کہ اس کے چند گولیاں لگیں مزید فائر جاری تھے کہ وہ زخمی حالت میں بیرک کے پیچھے باتھ روم والی سائڈ پر بھاگ کھڑا ھوا اس کا بازو اور پیٹ کافی متاثر ھوا غازی یوسف قادری اس کو زندہ چھوڑنے پر ھرگز تیار نہ تھے مگر اس اچانک کاروائی پر جیل عملہ الرٹ ھو گیا اور غازی یوسف قادری کو قابو کر کے گرفتار کر لیا گیا۔
غازی یوسف قادری کو بھی بیرونی دباؤ کی بدولت دوران اسیری بہت مشکل اٹھانی پڑی مگر استقامت کا منارہ بنے رھے۔ دوران اسیری بھی انکا غازی ممتاز قادری شہید سے بڑا رابطہ رھا غازی ممتاز قادری شہید ان سے بڑی محبت فرماتے جب غازی صاحب کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رھا تھا اسی راستے میں غازی یوسف قادری کا بیرک بھی تھا پھانسی کےوقت گزرتے ہوئے غازی یوسف قادری صاحب کے بیرک کو بڑی محبت سے دیکھتے رھے۔یہ عشاقِ صادقین اجازت نہ ملنے کے سبب اس وقت مل نہ سکے
غازی یوسف قادری کیس کی پیروی بڑے احسن انداز میں کی گئی غازی ممتاز قادری شہید کے اھل خانہ بالخصوص غازی صاحب کے بھائی عابد قادری عطاری اور ھمارے دوست جناب زبیر ھارونی بھائی کا بہت کردار ھے۔
غازی یوسف قادری کی رھائی ضمانت کے تحت نومبر سال2017 میں ممکن ہوئی۔یوسف بھائی کی رہائی کی اھم وجہ مضروب اصغر کذاب کی جانب سے کیس کی عدم پیروی ھے۔ کیس میں اسکے وکیل نے پیش ھونا ھی چھوڑ دیا تھا۔ بعد از ضمانت ان کا کیس چلتا رہا جس کا فیصلہ پرسوں سنا دیا گیا ہے غازی یوسف قادری مدظلہ کو 6 سال قید سخت 50 ہزار جرمانہ کی سزا سنادی گئی ہے۔غازی یوسف قادری کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 5 سال سزا حملہ کی اور ایک سال سزا ہتھیار رکھنے کی سنائی گئی ہے ہم اس سزا پر بہت دکھ ہوا ہے مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں اللہ یوسف قادری بھائی کو صحت عافیت والی زندگی عطا فرماۓ۔