Thursday 4 May 2017

(شعر نمبر07) جان ہیں جان کیا نظر آئے



(شعر نمبر07) 
جان ہیں جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں                                 
مشکل الفاظ کے معنی
*جان -- روح * عدو -- دشمن * گرد غار -- غار کے ارد گرد
مفہوم و تشریح
غار ثور میں (ہجرت کی رات) قیام کے دوران دشمن غار کے دہانے پہ چلے آئے اور اِدھر اُدھر پھرتے رہے مگر میرے آقا ﷺ ان کو نظر نہ آئے اس لیے کہ آپ روح اور جانِ کائنات ہیں اور جان بھلا کب نظر آتی ہے اور آپ تو ایمان کی بھی جان ہیں
؂     قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان ہیں یہ  
ایمان یہ کہتا ہے کہ میری جاں ہیں یہ                      
اور جب ایمان نظر نہیں آتا تو ایمان کی جان کیسے نظر آئے اور پھر
؂      ہر ایک کا حصہ نہیں دیدار کسی کا
 بوجھل کو محبوب دکھائے نہیں جاتے                                
اسی لیے تو حاضر و ناظر ہونے کے باوجود نظر نہ آئے نہ ہجرت کی رات نہ غار ثور میں ، تو جب ان کو نظر نہ آئے ( حالانکہ سورۃ یسن شریف کی تلاوت کرتے جا رہے ہیں اور کافروں کے سروں میں مٹی ڈال کر جا رہے ہیں) تو آج بھی اگر حاضر و ناظر ہونے کے باوجود نظر نہ آئیں تو کوئی تعجب نہیں ، بڑوں کو نظر نہ آئے تو چھوٹوں کو کیا آئیں گے، اصل بات وہی ہے کہ 
؂ بوجھل کو محبوب دکھائے نہیں جاتے
مولانا ابو النور اس شعر کی شعرح میں لکھتے ہیں ۔ 
حضور سرور عالم ﷺ جان دو عالم ہیں جسم میں جان نہ ہو تو جسم بیکار اور مردہ کہلاتا ہے اسی طرح اگر حضور ﷺ نہ ہوتے اور نہ ہوں تو عالم نہ ہوتا نہ ر ہتا
چناچہ اعلیٰ حضرت ہی ایک دوسرے مقام فرماتے ہیں
؂     وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
 جاں ہیں وہ جہاں کی جاں ہے تو جہاں ہے                                  
جان ہمارے جسم میں ایک ہوتی ہے اور ایک ہوتے ہوئے جسم کے ہر عضو میں اور بال بال میں موجود ہے۔ جو جان ہاتھ میں ہے وہی پیروں میں بھی ہے اور جو جان کانوں میں ہے وہی آنکھوں میں بھی ہے۔ اسی لیے جسم کے کسی حصہ کو کوئی تکلیف پہنچے تو جان بے چین ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سارے جہاں کی ایک ہی جان ہے اور وہ حضور ﷺ ہیں اہل جہاں میں سے کسی کو کوئی تکلیف ہو تو حضور ﷺ پر وہ شاق گزرتی ہے آیت عَزِیُز’‘ مَا عَنِتُّمْ اس امر پہ شاید ہے کسی عضو کی تکلیف پر ضروری ہے کہ اس کا جان سے تعلق ہو تب جان کو اس کی تکلیف کا احساس ہو گا اور اگر جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا جائے تو وہ حصہ جان سے متعلق نہیں رہتا۔ تو اب اس عضو کو چاہے کیڑے مکوڑے کھا جائیں تو جان کو علم تو ہو گا مگر پرواہ نہ ہو گی۔ یونہی جن کا تعلق حضور سرور دو عالم ﷺ سے موجود ہے ان کی تکلیف حضور ﷺ پر شاق گزرتی ہے اور جو اس جان عالم ﷺ سے کٹ کر الگ ہو چکے کفار و مرتدین کی طرح ۔ ان کو جہنم کی آگ بھی کھا جائے تو سرکار ﷺ کو اس سے کیا ؟ ہاں حضور ﷺ اپنے غلاموں کے لئے چاہیں گے کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔
یہ جان جسم میں موجود ہوتی ہے مگر آج تک جان کو کسی نے دیکھا نہیں چنانچہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
؂ تن ز جان و جاں زتن مستور نیست لیک دید جاں را دستور نیست
یعنی جسم سے جان اور جان سے جسم پوشیدہ نہیں مگر جان کے دیکھنے کا دستور نہیں یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ ابولہب کی بیوی ایک پتھر اٹھائے ہوئے اس ارادہ سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر آئی کہ میں محمد (ﷺ) کو اس سے ماروں گی ۔ ( معاذ اللہ) اس وقت حضور ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے باوجود سامنے تشریف فرما ہونے کے حضور ﷺ ابو لہب کی بیوی کو نظر نہ آئے۔ اور وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھنے لگی کہ تمہارا دوست محمد ( ﷺ) کہاں ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میرے ساتھ تشریف فرما ہیں ۔ وہ بولی مجھے تو نظر نہیں آ رہے ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھے نظر آئیں نہ آئیں حضور ﷺ یہ میرے پاس تشریف فرما ہیں چنانچہ وہ مایوس واپس چلی گئی۔ ( جامع المعجزات)
   شب ہجرت جب سرکارِ دو عالم ﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے کفار نے حضور ﷺ کے مکان کو گھیر لیا تو حضور ﷺ سورۃ یٰسین کی تلاوت فرماتے ہوئے ان کے پاس سے نکل گئے اور حضور ﷺ کو کو ئی نہ دیکھ سکا اور پھر جب حضور ﷺ مکہ سے پانچ سو میل دور کوہِ ثور کی غار میں تشریف فرما ہوئے اور قریش مکہ آپ ﷺ کی تلاش میں جب اُس غار تک آ پہنچے تو باوجو د کافی تلاش کے وہ حضور ﷺ کو دیکھ نہ سکے ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرۂ العزیز غار کے گرد کافروں کی حضور ﷺ کی اسی تلاش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ غار کے گرد پھرنے والے اور حضور ﷺ کو دیکھ لینے کی کوشش کرنے والے دشمن ناحق گرد غار پھر رہے ہیں ۔ وہ حضور ﷺ کو ہرگز دیکھ اور پا نہ سکیں گے ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ جان ہیں اور جان کسی کو نظر آ جائے؟ یہ مشکل ہے۔

No comments:

Post a Comment