Sunday, 16 June 2019

غیرت_مند_فقیر

#غداری کو روکنے کیلئے نورالدین زنگی کی بیوہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا اتحاد نورالدین زنگی کے بیٹے کے خلاف  زبردست تحریر 
#غیرت_مند_فقیر #صلاح_الدین_ایوبی #نورالدین_زنگی  

سلطان نور الدین زنگی (رح) کی وفات کے بعد جب ان کا نو عمر بیٹا ملک الصالح مسند خلافت پر بیٹھا تو صلیبیوں اور عیاش مسلمان امرا نے اس کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے صلاح الدین کے خلاف کر دیا۔ دوستی اور امن کا ڈرامہ کھیلا گیا جس کے تحت سلطان نور الدین زنگی کی قید میں آئے اہم عیسائی رہنماؤں کو بغیر کسی مطالبے کے ملک الصالح نے رہا کر دیا۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے نور الدین زنگی کی بیوہ نے اپنے ہی بیٹے کے خلاف مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو خط لکھا اور دمشق کی خلافت پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اس عورت نے ہی دمشق کی عورتوں کی ذہن سازی کی تاکہ جب ایوبی دمشق کے دروازہ پر آئے تو کم سے کم شہریوں کی طرف سے مزاحمت نا ہو۔ 
خیر دمشق سلطان ایوبی (رح) کے قبضہ میں چلا گیا۔ زنگی مرحوم کی زندگی میں سلطان ایوبی کو ان کا بڑا آسرا تھا۔ کہ دونوں سلطانوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ بیت المقدس کی پنجہ صلیب سے آزادی۔ لیکن اب بیت المقدس بہت دور نظر آنے لگا تھا۔ جب دمشق فتح ہوا تو عیسائی دوست امرا اور ملک الصالح حلب کی طرف فرار ہو گئے۔  یہ وہی حلب ہے جسے دنیا آج allepo کے نام سے جانتی ہے اور پچھلے سال مغربی قوتوں کی بمباری کے بعد شہر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ ملک الصالح نے حلب میں صلیبیوں کی مدد سے پراپوگینڈہ کر کے شہر اور آس پاس کے علاقوں سے ایوبی کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کر لی۔ اب ایوبی کو صلیبیوں سے پہلے اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑنا تھا۔ جو بیت المقدس کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے تھے۔ ایوبی کے خلاف تین بڑی مسلمان فوجیں لڑنے کو تیار تھیں۔ پہلی فوج حلب کی، دوسری صلاح الدین ایوبی کے کزن سیف اللَّہ کی اور تیسری فوج ہَرن کے قلعہ دار کی تھی۔ 
وقت گزرا، ایوبی نے کمال مہارت سے سردیوں میں حلب کا محاصرہ کر لیا۔ حلب میں خبر تب پہنچی جب ایوبی بالکل ان کے سر آن پہنچا تھا۔ عیسائی بادشاہ رینالڈ بھاری معاوضہ لے کر ملک الصالح کی مدد کو عیسائی فوج لے کر نکلا۔ ادھر حلب شہر کے اندر اعلان کروائے گئے کہ ایوبی نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے۔ یوں حلب کے مسلمان بھی ایوبی کے خلاف خوب جگر سے لڑے۔ جب ایوبی کو عیسائی فوج کی پیش قدمی کا علم ہوا تو مجبورا اسے شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایوبی اپنے کسی conquest میں ناکامیاب لوٹا تھا۔ ایوبی کا ارادہ تھا کہ راستہ بدل کر عیسائی فوج کے عقب میں جا کر ان پر حملہ کرے گا۔ لیکن جب رینالڈ کو محاصرے کے اختتام کی خبر ملی تو وہ بھی راستہ بدل کر ملک الصالح سے عہد شکنی کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔ 
اب تینوں مسلمان فوجوں نے مل کر ایوبی پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ ایوبی نے پھر بہترین جنگی چال چلی اور ان فوجوں کو حلب سے کچھ دور ایک پہاڑی سلسلہ میں لا کر لڑانے کا فیصلہ کیا۔ ایوبی نے اپنی فوج کو اس پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ کے باہر خیمہ زن کر دیا۔ جب حملہ ہوا تو ایوبی کی فوج حملہ آور فوجوں کو پھنسا کر پہاڑی درے میں لے آئی جہاں دائیں بائیں کی چوٹیوں سے ایوبی کے کمانڈوز نے ان پر آگ کی ہانڈیاں برسائیں اور فتح اپنے نام کی۔ حملہ آور فوجوں میں سے حلب کی ایک ریزرو فوج نے پہاڑی سلسلہ کے دائیں جانب سے عین اس وقت حملہ کر دیا جب پہلے سے حملہ آور فوج پہاڑی درے میں آتشی تیروں اور ہانڈیوں کی زد میں تھی۔ ایوبی نے جنگ کی پلاننگ کے وقت اس طرف سے حملہ کے پہلو پر غور تو کیا تھا لیکن فوج کی کمی کے باعث وہ اس کے بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ یہ حملہ جیتی ہوئی بازی کو شکست میں بدل دینے کے لیے کافی تھا۔ لیکن عین اسی وقت 500 گھڑ سواروں کا دستہ کہیں سے مدد کو آن پہنچا۔ جس میں 400 خواتین تھیں اور 100 مرد۔ ایوبی جو کہ قوم کی بیٹیوں کو میدان جنگ میں لڑانا معیوب سمجھتا تھا اسنے انہیں جب واپس پلٹنے کو کہا تھا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ایک مرد نے ایوبی کو ایک خط دیا جو زنگی کی بیوہ کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میرے بھائی ایوبی میں جانتی ہوں کہ تم بیٹیوں کو میدان جنگ میں لے جانے کے حق میں نہیں لیکن اگر تم نے انہیں واپس بھیجا تو دمشق کے مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ ان کے جذبہ جہاد کی قدر کریں۔ 
یوں ایوبی نے انہیں ساتھ لڑنے کی اجازت دی اور دائیں جانب سے حملہ آور حلب کی فوج پر ان 400 خواتین مجاہد بہنوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور فاتح ٹھہرا۔ اسی جنگ کے بعد ایوبی نے اپنے کزن سیف اللَّہ جو کہ میدان جنگ سے فرار ہو چکا تھا، کو خط لکھا جس میں اس نے یہ جملہ بھی لکھا ''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''۔ وجہ یہ تھی کہ فتح کے بعد سیف اللَّہ اور ہرن کے قعلہ داروں کے خیموں سے سینکڑوں رقاصائیں اور خوبصورت پرندے ملے تھے۔ 
امت کے غداروں سے لڑنے کے بعد ایوبی نے فلسطین کا رخ کیا اور جناب عمر (رض) کے بعد واحد امیر بنا جو بیت المقدس کا فاتح ٹھہرا۔ آج بھی بیت المقدس کسی ایوبی کی راہ تکتا ہو گا۔ لیکن اب امت

میں ایک بھی ایوبی نہیں۔ جبکہ ملک الصالح اور سیف اللَّہ جیسوں کی بہتات ہے۔ مسلمان نوجوان عورت، شراب اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ کہیں بلند عمارتوں کا مقابلہ ہے تو کہیں محلوں میں کھڑی گاڑیوں کی تعداد کا۔ شاید ایوبی کا پیغام آج کے مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ

''تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کے لیے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو''

No comments:

Post a Comment