Wednesday, 21 June 2017

(شعر نمبر01) وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گُمان نقص جہاں نہیں



نعت شریف نمبر36
 (شعر نمبر01)
وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گُمان نقص جہاں نہیں
                        یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
مشکل الفاظ کے معنی
*نَقْص نون کے فتح کے ساتھ -- عیب، کمی،کھوٹ * خار -- کانٹا 
مفہوم و تشریح
آقائے دو جہاں ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کمال کا حسن عطا فرمایا ہے کہ آپ کے حسن میں عیب تو کیا عیب کا گمان بھی نہیں ہو سکتا، دنیا کا وہ کون سا پھول ہے جس کے ساتھ کانٹا نہ ہو مگر مدینے کا پھول ہر قسم کے کانٹے سے محفوظ اور ہر طرح کا کانٹا آپ ﷺ سے دور ہے اور ہر شمع کے ساتھ دھوئیں کا ہونا لازم ہے لیکن آپ ﷺ ایسی شمع رسالت ہیں کہ جہاں دھوئیں کا نام و نشاں تک نہیں ہے۔

اس شعر میں حضور علیہ السلام کے حسن کی رعنائیوں کو بیان کیا گیا ہے جس کو صحابہ کرام یوں بیان کرتی ہیں لم ار قبلہ ولا بعدہ مثلہ (مشکوۃ)آپﷺ جیسا حسین و جمیل نہ پہلے دیکھا نہ آپ ﷺ کے بعدکوئی دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے خود کئی مواقع پہ فرمایا لست مچلکم ۔لست کھتیتکم۔ ایکم مثلی۔ تم میں کون میری طرح کا ہو سکتا ہے اور جبریل امیں نے یوں عرض کیا ۔
افاق ھا دیدی ام
مہربتاں در ید ام
بسیار خوباں دیدہ ام
لیکن تو چیزے دیگری
مدینہ کی بچیوں نے چودھویں کا چاند کہا اور حضرت حسان بن ثابت نے یوں کہا۔
الصبح بدامن طلعنہ
واللیل دجیٰ من و فرتہ
فمحمد نا ھو سیدنا
فالوزلنا لا حسابتیہ
جس کا مفہوم اعلیٰ حضرت کے برادر اصغر نے یوں بیان کیا
ایسا تجھے خالق نے طرح داد بنایا
یوسف کو تیرا طالب دیدار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تجھے سرکار بنایا
للہ! کرم میرے بھی ویرانہء دل پر
صحرا کو تیرے حسن نے گلزار بنایا
(ذوق نعت)
اورقطب عالم تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ نے مزید آسان کر دیا۔
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
مولانا بشیر صاحب سلطان الواعظین، اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
وہی ہے تمہاری تصویر بناتا ہے ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے (پ۳ع۹)
یعنی وہ ارحم میں جس طرح خود چاہیے تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔ چناچہ اس نے کسی کو خوبصورت بنایا کسی کو ایسا نہ بنایا۔ کوئی پستہ قد ہے تو کوئی دراز قد۔ کسی کا رنگ گورا ہے تو کسی کا کالا ۔ کوئی اندھا ہے یا کانا، کوئی گونگا ہے تو کوئی بہرہ خدا جیسے چاہیے جیسا بنائے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اس نے جس کو جیسا بنایا ٹھیک بنایا۔
یہ تو ہے عام مخلوق کے لیے مگر اب آئیے اس کے محبوب حضور سید المرسلین ﷺ کی طرف اور دیکھیئے اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کو کیسے بنایا؟ کیا اُسی عام دستور کے مطابو یعنی ’’کَیْفَ یَشَآء‘‘ یا اپنے محبوب کے لیے کوئی اور انداز اختیار فرمایا؟اس کا جواب حضور ﷺ کے درباری شاعرحضرت حسان رضی اللہ عنہ دیتے ہیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کا حسن و جمال ملاخطہ کر کے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے یوں عرض کیا۔
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیٰ
وَاکْمَلُ مَنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّاًمِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآء
یعنی یارسول اللہ!ﷺ آپ سے زیادہ حسین و جمیل میری آنکھ نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اور آقاﷺ دیکھتا بھی کیسے جب کہ آپﷺ سے زیادہ حسین کسی مانں نے جنا ہی نہیں۔ میرے آقا!ﷺ آپ ہر عیب سے پاک پیدا فرمائے گئے ہیں۔ گویا آپ ﷺ اپنی مرضی کے مطابق جیسا آپﷺ نے خود چاہا ویسا ہی خدا نے آپ کو بنا دیا۔
یہ حقیقت حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ عوام کے لیے ہے کہ جیسے خدا چاہیے انہیں بنا دے۔ حضور ﷺ کے لیے یہ بات نہیں۔ بلکہ اللہ رب العزت نے جب محبوب ﷺکو پیدا فرمایا تو محبوب کو محبوب کی مرضی کے مطابق بنایا۔محبوب ﷺ سے پوچھ کر بنایا، جیسے محبوب ﷺ نے چاہا ویسے ہی محبوب بنایا اور چونکہ محبوب یہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس میں کوئی عیب ہو ۔اس لیے حضور ﷺ جب اپنے چاہنے کے مطابق پیدا کیے گئے ہیں تو لازماً آپ ﷺ ہر عیب سے پاک پیدا فرمائے گئے ہیں۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے اس ایمان افروز بیان کے پیش نظر ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ ہمارے حضور ﷺ جو نحبوب خدا ہیں ۔ ہر عیب و نقص سے پاک و مبرا ہیں۔ بے عیب خالق نے اپنے محبوب کو بھی بے عیب بنایا ہے۔
 

2 comments: