*۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم رضوی اور علماۓ وقت کی تلخیاں ۔۔۔۔۔۔*
ایک وجدانی حقیقت
مجھے مشہدی صاحب کے لفظوں پر کوئی تعجب نہیں ۔
مجھے جلالی صاحب کے بغض پر بھی کوئی حیرت نہیں ۔
مجھے جامی صاحب کے بھی خبثِ باطن سے بھی پریشانی نہیں
مجھے علماء میں سے خادم رضوی کے خلاف اٹھنے والی کسی آواز سے کوئی حیرت نہیں ۔۔۔
دراصل مشہدی صاحب جامی صاحب جلالی وغیرہ وغیرہ خود ایک بڑے پختہ عالم رہے ہیں ۔ اور پختہ عالم خادم رضوی صاحب بھی ہیں ۔
یہ خالی دو چار نام نہیں نہیں اور بھی کئی جلیل القدر علماء ہیں جو ساری زندگی مناظرے کرتے رہے یا درس و تدریس یا تالیف و تصنیف یا پھر خطابت کرتے رہے ہیں وہ بھی خادم رضوی صاحب کے بارے میں بڑے دل جلے لفظ کہتے ہیں۔
ارے خدا کے بندو ۔
یہ نفرت سے نہیں کہتے ۔ ان جلیل القدر علماء کو ایک چیز کھاۓ جاتی ہے کہ ہم نے دین کا اتنا کام کیا ۔ ملکوں ملکوں دورے کیے۔مناظرے کیے ۔ غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ بڑے بڑے ادارے کھولے۔کڑوڑوں مرید ایک اشارے پر جان دینے والے بھی ہیں ۔ ہماری خطابتوں کے جوہر مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جانتے ہیں۔دنیا کی کئی زبانوں پر عبور حاصل کیا ۔ ہم جہاں بھی گئے علم کے علَم بلند کیے۔عیسائیت ، یہودیت اور اس جیسے کئی مذاھب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کامیاب مکالمے کیے۔تحفظِ ختمِ نبوت پر تو ہم نے بھی قادیانیت اور دیگر باطل فرقوں کی دھجیاں اڑائیں ہیں۔ہماری مجلسِ وعظ کے احوال کو مکینانِ عرش جانتے ہیں کہ کس طرح گریبان چاک اور ہستیاں خاک ہوتی ہیں۔۔ ہم میں تو کئی ایسے ہیں جو مقاماتِ سلوک کی اعلیٰ ترین منزلیں مارے بیٹھے ہیں۔۔ ۔۔ مگر ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔
ہاۓ قسمت ۔۔۔ جب ناموسِ مصطفیٰ پر پہرے کی بات آئی ۔۔ تو تقدیر ہم پر سبقت لے گئی۔التفاتِ فضل کے چشموں کا رخ لمحوں میں پھر گیا۔حجاباتِ مشیّت کے ارتفاع نے آنکھوں کو حیرتی کر دیا۔ہمارے رشک پر کم فہموں نے حسد کا اطلاق کر ڈالا۔ہماری نیّتوں کو ایوان و اقتدار کی غلامی سے مشروط کر دیا گیا۔ہوا و ہوس کو ہمارا مقصد کا جزوِلاینفک قرار دیا گیا۔بُھلا دیا گیا کہ ہم ہی وہ وارثانِ علومِ نبوت تھے کہ جنہوں نے ماضی قریب میں کفر و ارتداد کی بنیادیں اکھاڑ پھینکیں تھیں۔ہم ہی تو تھے جنہوں نے ہزاروں علماءکا لشکر آنے والے وقت کے لیے تیار کیا تھا۔مغربی تشکیک کے دھارے میں بہتی ہوئی فکروں کو ہم نے ہی کنارے بخشے تھے۔۔شعور و لا شعور اور تحت و فوقِ شعور سے تعلق رکھنے والی کیفیات و ماہیات کا کلامی و فلسفیانہ اندازِ تدبر ناقص عقلوں کو ہم نے ہی تو سکھایا تھا۔اجتہادی و استنباطی قوتوں کے تعینات ہماری راۓ کے ہی محتاج تھے ۔۔۔
کیا نہیں تھے ہم ۔ یہ تکبر کہاں ۔ یہ تو تحدیثِ نعمت کا بیانیہ ہے ۔کیا ہم میں اب بھی یہ خواہش نہ ابھرتی کہ صحیح استحقاق کا محل ہمارے نفوس ہیں۔
اچانک یہ کیا ہوا ۔ نظامِ میکدہ بدل گیا۔ ہمارا ہی ہم مشرب ۔ ہم مسلک۔معذورِ شرعی۔
جس کی ساری زندگی ضَرَبَ سَمِعَ قَتَلَ کہنے میں گزر گئی۔جس کا ممبر عوامی تقریروں سے زیادہ اونچا نہ ہوا۔جس کو سیاست کے چال چلن کا علم نہیں ۔جو حالاتِ موجودہ کی نزاکتوں سے آشنا نہیں۔۔ ہم کیوں نہ دشت و صحرا کا رخ کریں کہ یہی جوہر اس سعادتِ عظمیٰ کے لیے منتخب ہوا ۔۔۔کیا نیکی تھی اس کے پاس ۔۔۔ کون سا جذبہ تھا اس کے پاس ۔ کس کی دعا اس کو اکرام کے درجے پر لے گئی ۔ چشمِ گریاں کا کون سا آنسو بارگاہِ شفاعت مآب میں ہم جیسے متلاطم و متموج سمندروں پر بازی مار گیا ۔
لحاظِ امر کی تقسیم میں کون سی استعدادی صفت فیضانِ ایزدی کی وسعتوں کو جذب کر گئی ۔
تلوین سے تمکین اور وجد سے جذب تک کے سلسلوں کی زنجیریں موۓ آتش دیدہ کیسے بن گئیں ۔۔
ارے یہ جلیل القدر علماء اسی کشمکش میں خادم رضوی پر رشک کرتے بظاہر ان کے خلاف بات کہتے ہیں مگر اصل حسرت عدمِ سعادت کی وجہ سے ہے ۔۔
میں مشہدی صاحب اور دیگر علماء اہلِ سنت کو سلام پیش کرتا ہوں جو خادم رضوی کے خلاف بولتے ہیں ۔
اور بولو ۔ اور بولو۔ جی بھر کے خلاف بولو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ۔
آؤ مل کے رشک کرتے ہیں ۔۔۔۔ مل کے اپنی تقدیر میں عدمِ سعادت کی وجہ تلاش کرتے ہیں ۔مل کے بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ ہم کو ناموس رسالت پر پہرے کا ایک لمحہ میسر آجاۓ۔
No comments:
Post a Comment