Sunday 16 June 2019

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی

"پاکستانی ادارے زندہ باد"
"چند seconds کی توجہ چاہوں گا"

    یہ زیر نظر سُنَّت رسول ﷺ سے مزین چہرہ کوٹ عبد المالک سے تعلق رکھنے والے حضرت، علامہ منیر احند نعمانی کا پاؤں ہے.... 

   23 نومبر 2018 کی رات دیگر 50 ہزار علماءاسلام کی طرح (بامطابق اخبارات وجرائد) انہیں بھی ملک پاکستان کے ایک حصہ سے گرفتار کیا گیا، 2 موٹر-سائیکل سوار اہلکاران نے انہیں ایک سَڑَک سے گزرتے ہوئے آن دبوچا اور   جیسی ان کی تربیت تھی گریبان سے کھینچا اور اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر ہی ٹانگ لیا، مولانا Diabetic patient (شوگَر کے مریض) تھے پاؤں سُن پڑ گیا اور silencer پر سِرَک گیا، سُن پڑنے کی وجہ سے مولانا کو بھی معلوم نہ پڑا اور وہ دو بدبخت پولیس اہلکار؛ تو ان کی تعریف میں الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوں،،، قصہ مختصر علامہ صاحب کا پاؤں  گرم silencer ہونے کی وجہ سے جلتا جلتا، سائلنسر کے ساتھ چِپَک گیا،،، تھانے پہنچبے پَر جَب پاؤں silencer کے ساتھ گلی ہوئی رَبَڑ کی طرح چمٹا ہوا دیکھا تو بدبختوں نے بجائے کسی first aid وغیرہ کے پاؤں کو بے دَردی سے کھینچ کر silencer سے الَگ کیا اور اس کے بعد اسی طرح without giving any aid  حوالات میں چھوڑ دیا، جیلیں تو پہلے سے ہی علماء سے بھری پڑیں تھیں اور جگہ باقی نہ تھی (ورنہ شاید جیل اہلکاران ہی medical aid محیا کر دیتے) ڈھائی 2.5  مہینے تَک وہیں اور گلے ہوئے پاؤں کے ساتھ حوالات میں رکھا اس دوران ان کے گھر والوں کو یہی معلوم تھا کہ یا تو علامہ صاحب اغوا ہو گئے ہیں یا پھر ایجنسیوں کی جانب سے نامعلوم مقام پَر منتقل ہیں( Actually Missing Person  ہو گئے ہیں) اگر کوئی گھر والا ان کے پیچھے پتا لینے کو جائے گا تو وہ بھی اسی طرح غائب ہو جائے گا تو بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی گھر سے نہ نکلے،،،،، ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد وکلاء نے کچھ تگودو کی اور معاملات ہوئے اور حالات معمول پر آنے لگے تو معلوم پڑا کے علامہ صاحب تو تھانے کے حوالات میں تھے پھر کچھ وکلاء نے تھانے جا کر ایس ایچ او صاحب کے ساتھ منہ ماری کی شدید جھڑپ ہوئی اور اس طرح اس نے زور میں آکر علامہ صاحب کو عدالت پیش کیا گیا ورنہ بامطابق تھانےدار ان کو  اعلیٰ Orders تھے،،، خیر.... پھر عدالت میں وکلاء نے انہیں جوڈیشل کروایا اور اس طرح محترم جیل حکام کے حوالے ہوئے اور ان کا علاج کی شروعات کچھ ہوں ہوئی کہ “ان کا پاؤں کاٹنا پڑا“ اور ابھی جیل میں ہی تھے کہ پھر "مکمل ٹانگ کاٹنی پڑی" اور اس کے بعد تقریباً 3 سے 4 ماہ گزرنے کے بعد جج صاحب کو تھوڑا تَرس آیا اور انہیں رہائی ملی، رہائی بھی کیا کہ پہلے ہی علامہ صاحب ہسپتال میں موجود تھے بَس اب ان کا دوسرا پاؤں ھتھکڑی سے نکل گیا تھا، اس کے بعد تکلیف بڑھی تو ان کا دوسرا پاؤں اور پھر مکمل ٹانگ کَٹنے کے مراحل میں رہی اور.......

 آج ٹھیک اس وقعے کے چھ سات ماہ بعد تکلیفوں سے گُزَر وہ قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں❗
ان کا جنازہ آج شام عصر کی نماز کے بعد کوٹ عبد المالک میں ادا کی جائیگی!

 سوال یہ ہے کہ
کہاں ہیں انسانیت کا راگ آلاپنے والے؟ (Humanists)؟! یا "داڑھی والے" آپ کے حقوق العباد کی پیمانے پر نہیں اتے؟
اور دوسرا سوال میرا "اربابِ اختیار" سے ہے کہ
کیا اتنا سَب کچھ کرنے کے بعد آپ یہ سَب کانٹ پیمرا کے ذریعے لوگوں کے سامنے (میڈیا پر آنے) سے بھی روکیں گے کہ مجرموں کو سَزا دینی پڑ جائے گی،،،
 تو.........  اس کے بعد آپ اس شخص کے پیاروں(بھائی، بچوں عزیز واقارب) سے یہ توقع کریں گے کہ یہ

“پاکستان پولیس زندہ باد" "پاکستانی ادارے زندہ باد"  کے نعرے لگائیں؟!

پاکستانی قانون کو سلام ٹھوکیں گے؟!

معذرَت کے ساتھ اتنا اندھا تو میں بھی نہیں ہوں کہ اس طرح  executive positions پر براجمان کالی بھیڑروں کے ذاتی مفاد کے پیچھے ملک کا نام رکھ کر قربانیاں دی جائیں!
کاپی
(اَز اِبن إِسماعيل شَامیٌ)

No comments:

Post a Comment