Sunday 16 June 2019

حضرت، علامہ منیر احند نعمانی "کوفہ سے مدینے تک"

#داستان
"کوفہ سے مدینے تک"
  مولانا م نعمانی کا سفر شہادت
  تحریر 
محمد اسرار الحق مد نی چیمہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
 4 فروری کو علامہ خادم رضوی صاحب کی اے  ٹی سی میں پیشی کے بعد چند ساتھی وکلاء کے ہمراہ  کریک ڈاؤن میں زخمی ہو کر اسی حالت میں جیل میں دو ماہ گزارنے والے بزرگ عالم دین 
مولانا منیر نعمانی
 کی عیادت کے لیے لیے قریبی نجی ہسپتال حاضر ہوئے ہوئے جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت ڈاکٹر  مرہم پٹی کر رہے تھے مرہم پٹی سے فراغت کے بعد مولانا نے ہنستے مسکراتے مکمل داستان  ظلم سنائ, داستان انہی کے الفاظ میں حاضر خدمت ہے 
 مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے وقت ہمارا خاندان دو آرا میں منقسم ہو گیا ,آدھے افراد پاکستان آنا چاہتے تھے جبکہ باقی لوگ اپنی جنم بھومی اور وطن کی محبت میں مقبوضہ کشمیر کو ترجیح دے رہے تھے  میرے والد کے ایک فقرے نے  سارے گھر کو ہجرت پر متفق کردیا , انہوں نے فرمایا
" انڈیا ہمارے لیے کوفہ ہے اور پاکستان مدینہ" 
کوفہ  میں ہماری جان مال عزت اور ایمان کو خطرہ ہے 
 مدینے میں ہمارا سب کچھ محفوظ ہوگا 
پاکستان پہنچ  کر میں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے درس نظامی کیا ,گریجویشن کی اور آزاد کشمیر میں بطور جج قاضی تعینات ہوا ,
 اسی خوشی میں مرشد کریم کو ملنے پہنچا  تو انہوں نے فرمایا یا تجھے اللہ کا دین اس لیے نہیں پڑھایا تھا تا کہ تو سرکاری ٹکڑوں پہ پلے 
" جا اور جاکے کوٹ عبدالمالک لاہور کی جامع مسجد میں مولوی بن کے دین کی خدمت کر" 
 میں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیا اور پچھلے چالیس سال سے کوٹ عبدالمالک کی اسی مسجد میں دین متین کی خدمت میں مصروف ہوں 
 ایک رات اچانک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے مسجد کا محاصرہ کر لیا کیا میں نے اہلکاروں کو بتایا کہ میرا کسی سیاسی جماعت اور کسی احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے ہے اور نہ میں نے آج تک  کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا ہے ہے لیکن انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا 
پولیس مجھے لے کر جیسے ہی باہر نکلی
 محلے کے نوجوانوں نے مزاحمت شروع کر دی 
عورتیں بچے اور بوڑھے گلیوں میں نکل آئے آئے
 اہلکاروں نے سیدھا فائر کرنے شروع کر دیے  جس سے دو جوان شہید ہو گئے گئے شہادتوں کے باوجود مزاحمت ختم نہ ہوئی تو اہلکار مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلے لے
 میں واپس اپنے حجرے میں آگیا یا دریں اثناء اہلکاروں نے عقبی راستہ استعمال کرتے ہوئے مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا  اور مجھے جوتے بھی نہ پہننے دیے  شوگر کی وجہ سے میرے پاؤں سن رہے ہیں
 اسی حالت میں مجھے موٹر سائیکل پر لاد کے تھانے لے جایا گیا جب وہاں جا کر مجھے اترنے کا کہا گیا تو پتہ چلا کہ میرے پاؤں کا تلوا موٹر سائیکل کے سائلنسر کے ساتھ چپک گیا ہے ہے اہلکاروں نے میرا پاؤں کھینچ کر جدا کیا تو ہڈیوں تک پاؤں کا تلوا اس کے ساتھ رہ گیا 
اسی حالت میں مجھے دو ماہ جیل میں رکھا گیا 
آج رہائی ملی ہے تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ گینگرین پھیل گئی ہے پاؤں کاٹنا پڑے گا یہاں تک بول کے سر جھکا کے خاموش ہوگئے گئے تھوڑی دیر بعد لمبی سرد آہ کھینچیتے ہوئے سر اٹھایا اور بولے 
" میں نے یہ ساری تکلیف آقا کے نام پر ہنستے مسکراتے برداشت کی " لیکن میری والدہ نے آج جب مجھے فون کرکے ایک جملہ کہا ہاں تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے گئے انہوں نے فرمایا بیٹا تمہارا باپ تو کہتا تھا کہ
 انڈیا کوفہ ہے اور
 پاکستان مدینہ
  اتنا ظلم تو انڈین سیکورٹی فورسز نے تمہارے باپ نے نہیں کیا تھا جو نام نہاد ریاست مدینہ کے اہلکاروں نے تمہارے ساتھ کیا ہے
 قصہ مختصر وہ زہر پھیلتا گیا پہلے پاؤں کاٹا 
پھر پوری ٹانگ
 اور آج زہر پورے جسم میں پھیلنے کے باعث
 مولانا شہید ہو گئے 
 میں سوچتا ہوں جب آپ کا جسد خاکی گھر پہنچا ہوگا تواس ماں نے اپنے بیٹے کی لاش پر پھر یہی فقرہ دہرا کے عدالتی نظام اور ریاستی جبر پر لعنت بھیجی ہو گی
 اور ہر غیرت مند کو کوفے سے مدینے تک کے اس سفر کے نظریے پر نظرثانی پر مجبور کیا ہوگا 
 یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
  یہ وہی اہلکار ہے ہے وزیرستان میں جن کے سر کاٹ کے ان سے فٹبال کے جاتا تھا 
اور ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے حق میں جلوس نکالتے تھے جس کے نتیجے میں ہمی
 خود کش حملوں
 کا سامنا ہوا اور ہمارے قائدین اور کارکنان جعلی ریاست مدینہ پر قربان ہوگئے ہائے افسوس ہمیں اس وقت یہ معلوم ہوتا کہ یہ ریاست صرف عالمی شیطانی طاقتوں کی ایک اعلی کار ہے صرف ایک آلہ کار تو ہم ان کی خاطر اپنی جان کبھی قربان نہ کرتے
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
 اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

No comments:

Post a Comment