Sunday, 18 June 2017

(شعر نمبر01) اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے




نعت شریف نمبر62 
(شعر نمبر01)
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے                        
مشکل الفاظ کے معنی
*باری -- پیدا کرنے والا (اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام) * مہر -- سورج * نقاب -- حجاب ،پردہ 
مفہوم و تشریح
اے میرے پیارے نور والے آقا ! ﷺ
؂ذرا چہرے سے پردہ تو ہٹاؤ یا رسول اللہ 
ہمیں دیدار تو اپنا کراؤ یا رسول اللہ                          
( ﷺ)                                                                              
کیونکہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اگر پردے میں ہو تو گویا نور خدا پردے میں ہو جاتا ہے اس لیے کہ آپ ﷺ ہی تو نور خدا ہیں ( انا من نور اللہ) اور آپ ﷺ کا رخ انور پردے میں ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر زمانے پہ ظلم ، جہالت ، بے دینی و بدعقیدگی کے سیاہ بادل چھا گئے ہیں اور بس اب یہی انتظار کہ آسمان نبوت کا آفتاب عالم متاب (سراجامنیرا) اپنا چہرۂ انور پردے سے نکالے اور ہر طرف نور ہی نور پھیل جائے۔ 
؂ نور ازلی چمکیا غائب انہیرہ ہو گیا کملی والا آ گیا تھا ں تھاں سویرا ہو گیا
سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوۂ تبوک سے واپسی پر حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک نعت کا نذرانہ پیش کیا جس کے اشعار اس طرح ہیں
تنقل من صلب الی رحم
 اذا مضیٰ عالم بد اطبق                    
ور دت نار الخلیل مکتنما
 فی صلبہ انت کیف تحترق                  
وانت لما ولدت اشرفت
 الارض و ضاء ت بنورک الافق                
یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ( آدم و حوا علیھاالسلام سے لے کر حضرت عبد اللہ و سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھما تک) ایک ایک پاک اصلاب سے پاک ارحام کی طرف منتقل ہو تے رہے یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام کا دور آ گیا اور ان کے لیے نمرود نے آگ جلائی تو آپ ﷺ کا نور ان کے صلب میں ہونے کی وجہ سے آگ ان پر گلزار ہو گئی ۔ اور وہ جلنے سے بچ گئے اور جب آپ پیدا ہوئے تو ساری زمین بمعہ اطراف فلک آپ ﷺ کے نور سے چمک اُٹھی۔ 
؂ جس طرف دیکھیے سرکار نظر آتے ہیں
ایسا لگتا ہے سرکار نے پردہ نہ کیا                            

روشنی جتنی تیری یاد نے پھلائی ہے
 مہ و خورشید نے اتنا بھی اجالا نہ کیا                        
 (وقار عظیم)                                                                          
کلام رضااور معرضین
بعض لوگوں کا ایک سو سال کے بعد اعلیٰ حضرت ؒ کے مندرجہ بالا شعر پہ اعتراض سوائے حماقت کے اور کیا ہے جبکہ اس پوری صدی میں بے شمار مناظرے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھی گئیں اور مخالفین کے دلوں میں اعلیٰ حضرت ؒ کا انتہائی نغض ہونے کے باوجود بھی کسی کوکسی موقع پر بھی آپؒ کے نعتیہ اشعار پہ کوئی اعتراض نہ ہوا اور آج سو سال کے بعد اعتراضات پر ؂ ہوا مینڈکی کوز کام اللہ اللہ۔ کی مثال ہی صادق آسکتی ہے یا پھر عقل ہی اتنی ہے جتنی اس ناقد کی تھی جس پر علامہ اقبال کا شعر برائے تشریح پیش کیا گیا ۔
؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے                        
تو اس نے مندرجہ ذیل تشریح کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ’’ اپنے آپ کو (خودی) اتنا بلندی پہ لے جا کہ تو تقدیر سے بھی اوپر چلا جائے ، وہاں جا کر جب تجھے سردی لگے گی تو خدا خود ہی پوچھ لے گا کہ تیری رضائی کہاں ہے( تیری رضا کیا ہے کو تیری رضائی کہاں سے بنا دیا)
؂ گل گئے گلشن گئے جنگل دھتورے رہ گئے
عقل والے چل دیے اب بے شعورے رہ گئے                                   
اعلیٰ حضرت کا کلام کوئی معمولی کلام نہیں ہے کہ ہر ایرہ غیرہ نتھو خیرا اس کو سمجھنے کا مدعی بن بیٹھے بلکہ کلام الا مام ہے جس پر اپنے ہی نہیں بیگانے بھی وجد کرتے ہیں اور جس پر علامہ اقبال، حفیظ جالندھری،محسن کاکوروی اور اکبر وارثی جیسے یگانہ روز گار لوگ جھوم جھوم کر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جس بے چارے کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ وہ اعلیٰ حضرت کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شان میں کہا ہوا شعر قادیانیوں کے بارے میں سمجھ رہا ہے (جیسے مصنف دھماکہ) وہ اعلیٰ حضرت کے کلام کو خاک سمجھے گا، اس طرح کے مولوی کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا۔
؂مولوی ! یہ مولوی ہیں بات کے
در حقیقت بیل ہیں گجرات کے                            
لہٰذا شعر نمبر ایک کے بارے میں یہ کہنا کہ اعلیٰ حضرت نے حضور ﷺ کو خدا کہہ دیا ہے۔ اس سے معترضین کی علمی قابلیت،دینی خیانت ، بغض اعلیٰ حضرتؒ اور ان کا نام نہاد تقویٰ و خلوص و للّٰہیت کے دعوے، سب کچھ طشت از بام ہو گیا جب یہ علم و حکمت کے لحاظ سے اپاہج بیچارے اعلیٰ حضرتؒ کا ایک عام سا مصرعہ نہیں سمجھ سکتے تو ان کے لطیف و دقیق اشعار کس طرح سمجھ پائیں گے۔ سچ کہا کسی نے خدا جب دین لیتا ہے حماقت آہی جاتی ہے۔
حدائق بخشش کے بعض نسخوں میں ایک شعر اس نعت میں دوسرے نمبر پر یہ بھی ہے اور اس کا مصرعہ ثانیہ بڑا مشہور بھی ہے لیکن میرے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں چونکہ نہیں ہے لہٰذا میں نے نمرنگ میں اس کو شامل نہیں کیا لیکن شرح میں درج کر رہا ہوں اگرچہ اس کے مصرعہ اولیٰ میں اضطراب ہے 
؂ نہیں ہے وہ میٹھی نگاہ، خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے ان کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے                               
(مفہوم واضح ہے)                                      

1 comment:

  1. ماشاءاللہ پہلے شعر کی تشریح و توضیح بہت عمدہ کی ہے آپ نے۔ اللہ تعالی ہزار خیر سے نوازے۔ مہربانی
    کرکے دوسرے شعر
    نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
    غضب سے ان کے خدا بچاے جلال باری عتاب میں ہے

    تشریح فرمادیں بڑا کرم ہوگا

    ReplyDelete