Saturday, 24 June 2017

(شعر نمبر16) کروں مدح اہل دول رضاؔ پڑے اس بلا میں میری بلا



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر16)

کروں مدح اہل دول رضاؔ پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں                     
مشکل الفاظ کے معنی
*مدح -- تعریف * دول -- دولت کی جمع اور اہل دول یعنی دولت والے * بلا -- مصیبت *گدا -- منگتا * کریم -- کرم کرنے والا (اللہ اور رسول) * پارہ -- ٹکڑا * ناں -- روٹی 
مفہوم و تشریح
گدائے در مصطفی (احمد رضاؔ ) کا قلم صرف نعت رسول ﷺ کے لئے وقف ہے یا جو حضور ﷺ کا غلام بن کر ان کے جوڑے اپنے سر کا  تاج بنا لے (اولیاء کرام ) باقی رہا بادشاہوں اور نوابوں کی تعریف کرنا اس مصیبت میں میں تو کیا میرا جوتا بھی نہیں جائے گا۔ اس لیے کہ میں اپنے آقا ﷺ کے در کا بھکاری ہوں ، کیا ان کی بھیک ختم ہو گئی ہے کہ میں روٹی کے ٹکڑے کی خاطر کسی نواب کی خوشامد کردوں۔

اس شعر کا پس منظر اس طرح ہے کی ’’ ناں پارہ‘‘ ریاست کا نواب حضرت نوری میاں قبلہ ( علیہ الرحمۃ) کا مرید تھا ۔ اُس نے اپنے مرشد  سے عرض کیا کہ اعلیٰ حضرت سے ایک رباعی میرے لیے لکھوا ہیں ( تاکہ رہتی دنیا تک میری عظمت کے بھی ڈنکے بجتے رہیں) انہوں نے فرمایا کچھ کرتے ہیں ، اعلیٰ حضرت ایک مجلس میں محو گفتگو اور بہت خوش نظر آ رہے تھے کہ حضرت نوری میاں نے فرمایا! یہ میرے مرید اور ریاست نان پارہ کے نواب ہیں ان کی خواہش ہے کہ کوئی قطعہ ان کے متعلق تحریر فرما دیں، اعلیٰ حضرت نے قلم اُٹھایا اور فیالبدیہہ یہ شعر لکھ ڈالا، نواب نے اپنا سر پیٹ لیا اور پچھتانے لگا کہ اس سے تو بہتر تھا نہ ہی لکھواتا۔ ( معارف رضا کراچی شماری ج ۱۰ ص ۱۵۵)؂
؂ کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے                                    
فیضانِ رضا-----***-----جاری رہے گا (ان شاء اللہ العزیز)

(شعر نمبر15) نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا


نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر15)

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں               
مشکل الفاظ کے معنی
 *گلوں -- گل کی جمع، بمعنی پھول * ڈھیر -- بہت زیادہ               

مفہوم و تشریح
(جبریل امین کا عقیدہ پیش کیا جا رہا ہے قلبت مشارق الارض و مغاربھا ۔۔۔)                   
اے میرے پیارے آقا! آپ ﷺ جیسا نہ کبھی کوئی پیدا ہوا نہ ہو سکتا ہے ۔ کیا میں آپ ﷺ کو پھول کہوں ؟ مگر کیو ں کہوں ؟ اس لیے  کہ پھولوں کے تو ڈھیروں کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں اور آپ ﷺ جیسا ایک بھی نہیں
؂ اوہ سچا ای رب نے توڑ دتا جہدے وچ محمد نوں ڈھا لیا سی۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کفار و مشرکین کو مخاطب کر کے حضور علیہ السلام کی عظمت کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ 
؂ ھَجَوْتَ مُحَمَّداً اَجَ بْتُ عَنْہ‘
وَعِنْدَ اللّٰہِ فَی ذَاکَ الْجَزَ اء‘                    
اَتَھْجَوْہ‘ وَلَسْتَ لَہ‘ بِکُفُوْءٍ 
فَشَرَّ کُمَا لَخَیْرِ کُمَا فِدَاء‘              
اَمَنْ یَّھْجَوا رَ سُوْلَ اللّٰہِ مِنْکُمْ 
وَیَمْدَحُہ‘ وَ یَنْصُرْہ‘ سَوَاء‘                     
فَاِنَّ اَبِیْ وَ وَالِدَ تِیْ وَعِرْضِیْ 
لِعِدْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاء‘                 
( سیدنا حسان بن ثابت بحوالہ سیرت انب ہشام ؛ ۴۲۱)                              
ترجمہ
’’تو نے محمد ﷺ (تعر یف کے لائق) کی مذمت کی اور میں نے آپ ﷺ کی جانب سے اس (مذمت ) کا جواب دیا اور اس کا بدلہ خدا کی طرف سے ہے ۔ کیا تو محمد ﷺ کی ہجو کہتا ہے حالانکہ تیری اور ان کی کوئی مماثلت نہیں ۔ ( تو سراپا شر اور وہ سراپا خیر ہیں ) پس تمہارے شر کو خیر کے مقابلے میں چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ شخص جو رسول خدا ﷺ کی ہجو کہے ، اس شخص کی برابری کر سکتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کا مدح گو اور مدگار ہو۔ سنو ! میرا باپ اور میرے باپ کا باپ ، میری ساری عزت اور آبرو، غرض سب کچھ محمد ﷺ کی عزت و آبرو (پر قربان ) کو تم سے اور تمہارے شر سے محفوظ رکھنے کی ذمہ دار ہے‘‘ 

(شعر نمبر14) ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر14)

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے 
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سر و چماں نہیں                           
مشکل الفاظ کے معنی
*نادر -- کمیاب، عجیب و غریب * مثل -- برابر ، مانند *مثال -- نظیر * ڈالیاں -- شاخیں * چمن -- باغ *چماں -- ناز سے چلنا
مفہوم و تشریح
یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کا قد انور ، سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے ایسا بنا دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی شئے کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ چاہیے وہ باغ میں گلاب کے پودوں کی سیدی ڈالیاں ہوں یا سرد کا سیدھا تناور درخت ہو یہ چیزیں آپ ﷺ کے قد انور کے ساتھ مثال دیے جانے کے قابل نہیں ہیں بس
؂ تو لا جواب ہے تیرا کوئی جواب نہیں
آپ ﷺ کا قد مبارک نہایت ہی مناسب تھا سیدنا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نہ تو آپ انتہائی بلند قامت تھے اور نہ ہی چھوٹے قد کے وکان ریعۃ من القوم ۔ بلکہ بہت مناسب قد کے مالک تھے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ چلنے والوں میں بلند قامت دکھائی دیتے تھے اور جب آپ لوگوں میں بیٹھتے یکون کتفبہ اعکی من جمیع الجالسین ( زرقانی ص۳۰۰، ج ۴) تو آپ ﷺ کے کندھے مبارک سب سے اونچے دکھائی دیتے۔
؂ زقرق بقدم ہر کجا کہ می نگرم
 کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا انیجاست                    
مولانا حسن رضا خان بریلوی فرماتے ہیں
؂ تیرہ دل کو جلوۂ ماہ عرب درکار ہے 
چودھویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں                            
ان کے در کی بھیک چھوڑی سروری کے واسطے
 ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں                          

(شعر نمبر13) کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر13)

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں                  
مشکل الفاظ کے معنی
*فدا -- قربان * بس -- صرف *دو جہاں -- دونوں جہاں                   
مفہوم و تشریح
اے میرے پیارے نبی ! ﷺ میرا دل تو یہ چاہتا کہ آپ ﷺ کے نام اقدس پر جان قربان کر دوں اور میرے آقا ! ﷺ ایک صرف جان آپ کے نام نامی پہ قربان کرنا تو آپ کے شیان شان نہیں سمجھتا میں تو چاہتا ہوں دونوں جہاں اگر میرے اختیار میں ہوں تو آپ کے نام اقدس پر نثار کر دوں اور اے میرے پیارے نبی ! ﷺ آپ کا نام مبارک تو اس قابل ہے کہ کروڑوں جہاں ہوں تو اس پر نچھاور کر دوں لیکن کیا کروں کروڑوں جہاں تو ہیں نہیں۔
؂ سرکار سا جہاں میں نہ ہو گا نہ ہے کوئی
احمد ہے اسم آپ کا اور مصطفی ہے لقب                        
اللہ نے خطاب نہیں نام سے کیا
قرآن کی زبان پہ رہا ہے سدا لقب                          
جو نام لے گا آپ کا بھیجے گا وہ درود
احمد ہے اگر نام تو صل علی لقب                         
(حدیث شوق)           

(شعر نمبر12) سر عرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تری نظر




نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر12)

سر عرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں                      
مشکل الفاظ کے معنی
*سر عرش -- عرش کے اوپر * تخت نشیں -- تخت پر بیٹھنے والا * گزر -- آنا جانا * ملکوت -- فرشتوں کے رہنے کی جگہ * عیاں -- کھلا، ظاہر 
مفہوم و تشریح
مدینہ شریف کی گلیوں میں خراماں خراماں چلنے والے محبوب کی عرش معلی پر بھی آمد روفت ( آنا جانا) ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے دلوں کے رازوں کی نہ صرف خبر رکھتے ہیں بلکہ ان کو دیکھ بھی لیتے ہیں الغرض زمیں و آسمان ہو یا مکان و لا مکاں ہو کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو آپ ﷺ کی نگاہوں کے سامنے نہ ہو اور ہاں ہاں دیکھو تو اللہ جو صرف غیب نہیں بلکہ غیب الغیب ہے کہ ہم سے فرشتے غیب اور فرشتوں سے اللہ غائب تو جب حضور نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا تو اور کیا آپ سے پوشیدہ رہا۔
؂ اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود                   
حدیث شرلف میں ہے فواللہ لا یخفیٰ علی رکو عکم ولا خشو عکم انی لاری من وراء ظھری (بخاری ص ۱۵۳) 
ایک مقام پر صیح بخاری میں ہے الی اریٰ مالا تردن واسمع مالا تسمعون۔
سرکار کا یہ فرمانا کہ میرے سامنے تمہارا خشوع بھی مخفی نہیں ’’دل فرش پر ہے تیری نظر‘‘ کے عقیدے کی حقانیت کے لیے کافی ہے کیوں خشوع قلبی کیفیت کا نام ہے ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں
؂ اے فروغت صبح آثار و دھور                             چشم تو بنیندۂ مافی الصدور

Friday, 23 June 2017

(شعر نمبر11) وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے




نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر11)

وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکان وہ خدا ہے جس کا مکان نہیں               
مشکل الفاظ کے معنی
*لامکاں -- جس پر جگہ اور مکان کا اطلاق نہ ہو * مکیں -- مکان میں رہنے والا 
مفہوم و تشریح
لامکاں بھی حضور علیہ السلام کی قیام گاہ ہے اور عرش کے اوپر نعلین سمیت جلوہ گری بھی حضور ﷺ نے ہی فرمائی یہ سارے مکان حضور ﷺ ہی کے ہیں کیونکہ مکان صرف جسم و جسمانیات کے لیے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ان چیزوں سے پاک ہے لہٰذا اس کی ذات بابر کات مکان وغیرہ سے پاک منزہ و مبرہ ہے
؂ درود اس کے لیے سلام اس کے لیے
کہ جس کے نور کے گھر گھر چراغ جلتا ہے                           
ملی ہیں مجھ کو وہ کرنیں حضور کے در سے
کہ جس کو دیکھ لے سورج تو رُخ پلٹتا ہے                                      
(حسن رضوی)

(شعر نمبر10) وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہی سے سب ہے انہی کا سب



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر10)

وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہی سے سب ہے انہی کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں                              
مشکل الفاظ کے معنی
*ظل -- پر تو ، سایہ * زماں -- زمانہ، جہاں                 
مفہوم و تشریح
 ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ ہی نور ذات باری ہیں یعنی اللہ نے ا پنے نور کے پرتو سے آپ ﷺ کا نور پیدا فرمایا، سارے جہاں کو پھر آپ ﷺ کے نور کے فیض سے پیدا کیا اور سارا جہاں آپ ہی کے لیے بنایا ، آپ ہی کی ملکیت میں سب کچھ ہے چاہے وہ آسمان ہو کہ زمیں یا کوئی بھی زمانہ جب آپ ﷺ خدا محبوب ٹھہرے تو مالک کونین بھی ٹھہرے کیونکہ
؂ محبوب و محب میں نہیں تیرا میرا
سید سلمان ندوی کا ایک شعر ہے
؂ نور نبوی مقتبس از نور خدا ہے 
بندہ کو شرف نسبت مولا سے ملا ہے                    

(شعر نمبر09) ہے انہی کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر09)

ہے انہی کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں                                     
مشکل الفاظ کے معنی
*عیاں -- ظاہر * جلوہ -- چمک * نہاں -- پوشیدہ * تابش -- سورج کی روشنی                  
* پیش سامنے * جاں طاقت، تا
مفہوم و تشریح
ہمارے آقا علیہ السلام کے نور سے ہی ہر شئی کا ظہور ہوا اور آپ ﷺ کے نور کے سامنے ہر شئی پردۂ اخفا میں چلی جاتی ہے جیسے صبح صادق کی روشنی سورج کے نور کے سامنے چھپ جاتی ہے کیونکہ اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ سورج کے نور کا سامنا کر سکے اسی طرح حضور ﷺ کے نور کے سامنے کوئی روشنی بھی اپنی انفرادیت قائم نہیں رکھ سکتی۔
؂ پھوٹا جو سینہء شب تار الست سے 
اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو                      

(شعر نمبر08) یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نکوئی کی بھی ہے اَبرو



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر08)

یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نکوئی کی بھی ہے اَبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں                 
مشکل الفاظ کے معنی
*خلد -- جنت * نیکو، نکوئی -- بھلائی، بہتری * آبرو -- عزت * سماں -- برابر یا موقع                     
مفہوم و تشریح
میں اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ کہوں جنت خوبصورت نہیں بلکہ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ جنت کا حسن بھی اسی در کی خیرات ہے لیکن اے آرزوئے مدینہ جس کے سینے میں تو بس جائے اس کا مقام کیا ہو گا یہ خود جنت سے ہی پوچھ لو بھلا جنت اس سینے کی برابری کیسے کر سکتی ہے جس سینے کو طیبہ کی آرزو نے مدینہ بنا دیا ہے۔
؂ نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا 
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں                            
(بانگ درا از علامہ اقبال ؛۷۴)                                          
؂ حسن یوسف پر زلیخا مٹ گئیں
 آپ پر اللہ پیارا ہو گیا                          
دیکھ کر ان کا فروغ حسنِ پا 
مہر ذرہ چاند تارا ہو گیا                  
(ذوق نعت از مولانا حسن رضا خاں بریلوی ؛۱۷)
ہمارے ایک عالم اور شعلہ بیان خطیب کہا کرتے تھے کہ ایک جنت خدا نے بنائی جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا اْلاَ نْھٰرُ۔ ایک جنت مصطفی ﷺ نے بنائی ہے مابین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنتہ ۔
اے اللہ تو نے جنت بنائی ہے تو کب دے گا فرمایا پہلے جان لو گا پھر حساب لوں گا اگر کامیاب ہو گا تو جنت ملے گی مدینہ شریف سے آواز آئی او میرے امتی ادھر آ میرے پاس جنت لے لے نہ جان نہ حساب 
؂ جس کا بھری دنیا میں نہیں کوئی بھی والی
 اس کو بھی میرے آقا سینے سے لگاتے ہیں                                          

Allama Khadim Hussain Rizvi 2017 - Ghazwa-e-Khandaq

(شعر نمبر07) وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر07)

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و اُمید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں                                
مشکل الفاظ کے معنی
*شرف -- بزرگی * قطع -- کاٹنا * نسبتیں -- تعلقات * یاس -- نا امیدی
مفہوم و تشریح
اپنی عظمت و شان کے اعتبار سے کسی کو بھی حضور علیہ السلام سے کیا نسبت ہو سکتی ہے یہ تو آپ ﷺ کا کرم ہے کہ اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بَالْمُوْء مِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔ کہ وہ ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں لہٰذا مایوسیوں سے کہو کہ آقا ﷺ کے دامن رحمت میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ سراپا رحمت ہیں اور حکم الہٰی ہے لَا تَقْنَطُوامِنْ رَحْمَۃِاللّٰہِ اور جو آپ ﷺ کی رحمت کے امیدوار ہیں ان سے کہو! کہ ان کا کرم کسی کو محروم نہیں کرے گا۔ اپنی امیدیں ان سے وابستہ رکھو کہ اللہ کی رحمت ہیں اور اللہ نے رحمت سے نا امید نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔
؂سلام اس ذات اقدس پر کہ حامی ہے یتیموں کا

سلام اس جان اطہر پر، جو والی ہے غریبوں کا                              
سلام اس پر غلاموں کو عطا کی جس نے سلطانی
سکھائے جس نے مظلوموں کو اندازِ جہاں بانی                       
( حافظ لدھیانوی بحوالہ مدحرسول از راجہ رشید محمود؛ ۲۳)

(شعر نمبر06) تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فُصحا عرب کے بڑے بڑے



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر06)

تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فُصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں نہیں بلکہ جسم میں جان نہیں                   
مشکل الفاظ کے معنی
*دبے لچے -- شرمائے ہوئے، ڈرئے ہوئے * فصحا -- جمع فصیح کی بمونی خوش گفتار و زبان دان، اچھی اور عمدہ گفتگوکرنے والا
مفہوم و تشریح
بڑے بڑے زبان دان فصیح و بلیغ جن پر خطابت و شاعری بھی ناز کرتی تھی ۔ میرے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ منہ میں زبان ہے ہی نہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ جسم میں جان ہی نہیں ہے
اور آپ کا کلام سن کر ہزار دشمنی کے باوجود ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے واللہ سمعت قول الکھنۃ و قول الشعراء فما سمعت مثل ھولاء الکلمات۔ ( مسلم شریف)
اس طرح کا کلام نہ کوئی شاعر کر سکتا ہے نہ کاھن بلکہ یہ رب کے رسول ﷺ کی شان ہی ہو سکتی ہے ۔ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ۔ انا فصح العرب بعشت بجوامع الکلم ۔ میں سب سے فصیح و بلیغ عربی ہوں اور جامع کلمات دیگر بھیجا گیا ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا حضور! ﷺ میں عرب کے تمام شہروں میں پھرا ہوں مگر آپ جیسا فصیح و بلیغ کوئی نہ دیکھا فرمایا ایسا کیو ں نہ ہو ادبنی ربی میرا رب نے مجھے سکھایا ہے ( خصائص س ۶۳ ج۱، زرقانی علی المواھب ص۱۰۱ج ۴)
ایک روایت میں ہے ادبنی ربی فاحسن نا دیبی۔ میرے رب نے مجھے بڑے حسین انداز میں ادب (کلام و بیان سکھایا۔
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمیں وعظ فرماتے تو ہماری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتیں وجلت منھا القلوب (ترمذی ) دل دہل جاتے ۔ بخاری شریف میں ہے صاح المسلمون صیحہ مسلمانوں کی چیخیں بلند ہوتیں

(شعر نمبر05) کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پر یہ جراتیں!



نعت شریف نمبر36
(شعر نمبر05)

کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پر یہ جراتیں!
کیا میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ، ارے ہاں نہیں
مشکل الفاظ کے معنی
*اہانتیں -- توہینیں، گستاخیاں * کھلے بندوں -- علی الا اعلان 
*جراتیں -بہادریاں 
مفہوم و تشریح
یہ عجیب مسلمانی ہے کہ حضور نبی مکرم نور مجسم ﷺ جن کی محبت عین ایمان بلکہ ایمان کی بھی جان ہیں ، تو علی الا اعلان ان کی شان میں گستاخیاں بھی بکتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کیا ہم محمدی نہیں ہیں؟ تو سن لے او کمینے! ہاں تو نہ محمدی ہے نہ مسلمان ہے تو کالا نعام بل ھم اضل ہے کیونکہ
وتعزوہ وتو قروہ۔لا تقدمو ابین یداللہ ورسولہ۔ لاترفعوا اص واتکم فوق صوت النبی۔ قرآن پاک کی آیات طیبات اور لایومن احدکم حتی اکوں احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین حدیث پاک تیرے ایمان کی مکمل طور پر نفی کر رہی ہے۔
؂ محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے                 اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے
محمد ﷺ کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی                         خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی
محمد ﷺ کی محبت آن ملت شان ملت ہے                      محمد ﷺ کی محبت روح ملت جان ملت ہے
محمد ﷺ کی محبت خون کے رشتوں سے بالا ہے               یہ رشتہ دنیوی قانون کے رشتوں سے بالا ہے
محمد ﷺ ہے متاح عالم ، ایجاد سے پیارا                                پدر، مادر، برادر، مال، جان، اولاد سے پیارا
(ماہنامہ اسلام ؛ حفیظ جالندری)                                                                      

Thursday, 22 June 2017

شان حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور شان احمد رضا خان

(شعر نمبر04) بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَرّ مَقَرّ




نعت شریف نمبر36 
(شعر نمبر04)
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَرّ مَقَرّ
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں                  
مشکل الفاظ کے معنی
*بخدا -- خدا کی قسم * مفر -- بھاگنے کی جگہ *مقر -جائے پناہ 
مفہوم و تشریح
قسم اللہ رب العزت کی یہ بات پکی ہے کہ خدا کا دروازہ وہی ہے جو مصطفی ﷺ کا دروازہ ہے حضور علیہ السلام کی بارگاہ کے علاوہ نہ کہیں امن و قرار نصیب ہو سکتا ہے اور نہ ہی آپ ﷺ کی بارگاہ کے علاوہ کوئی جائے پناہ ہے اللہ تعالیٰ کا ہر حکم ، نعمت پہلے حضور ﷺ ہی کے پاس آتی ہے پھر حضور اس کو مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں اور اگر کسی کو حضور علیہ السلام کی بارگاہ سے کچھ نہیں ملا تو سمجھ لے کہ اس کے لئے خدا کی بارگاہ میں بھی کچھ نہیں ہے۔ 
آیات قرآنیہ ولو انھم اذطلمو انفسھم اور اجیب دعوۃالداع اذا دعان سے مذکورہ عقیدہ بخوبی عیاں ہے
؂ نعیم سیاہ کار پر بھی کرم ہو
دو عالم کو دولت عطا کرنے والے               
(سیدنعیم الدین مرادآبادی)

(شعر نمبر03) میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں



نعت شریف نمبر36 
(شعر نمبر03)
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہوں وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں                          
مشکل الفاظ کے معنی
*نثار -- قربان * سخن -- بات، کلام * سخن ۲ -- اعتراض 
مفہوم و تشریح
اے میرے جامع الکلم واے پیارے آقا ﷺ دنیا میں زبان دانی اور قادر الکلامی کا ملکہ تو بہت سا رے لوگوں کو ملا ہے لیکن میں آپ ﷺ کے کلام پہ کیوں نہ قربان ہو جاؤں کیونکہ آپ کی ہر بات ہی بے مثال ، لا جواب اور با کمال ہے ، جہاں آپ ﷺ بول گئے وہاں بڑوں بڑوں نے سر تسلیم خم کر لیا اور کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہی اور آپ ﷺ کا بیان ایسا بیان ہے کہ کوئی اس کو کیا بیان کرے بس
؂ میں فدا تم آپ ہو اپنا جواب
جس کی بات کی قسمیں خدا اُٹھائے ( وقیلہ یا رب ان ھولاء قوم لا یعلمون)
جو خدا کی مرضی کے بغیر نہ بولے (وما ینظق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یو حیٰ )
اس کے حسن کو خدا ہی بیان کرےء تو کرے بندہ کیا کرے یہی کرے کہ 
؂ چپ کر مہر علی ایتھے جا نیں بولن دی 

AAQA ﷺ KE DARBARI SHAYAR AUR ULLAMA AKRAAM KI KYA DUTY HAI BY ALLAMA KHA...

Wednesday, 21 June 2017

(شعر نمبر02) دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل و جان نہیں




نعت شریف نمبر36 
(شعر نمبر02)
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل و جان نہیں
کہو کیا ہے جو وہ یہاں نہیں مگر اک ’’نہیں‘‘ کہ وہ وہاں نہیں
مشکل الفاظ کے معنی
*امانی -- آرام ، سکون یا عربی ہے ہنیتہ کی بمعنی آرزو، خواہش قرآن پاک میں ہے الا امانی 
مفہوم و تشریح
دو جہان کی بھلائیاں ، دنیا و آخرت کا آرام و سکو ن ، دل و جان کی تمناؤں کا پورا ہونا ، بھلا بتاؤ تو سہی ؛ کوئی نعمت ہے جو سرکار ﷺ کے قدموں سے نہیں ملتی ہاں ایک شئے ہے کہ جو یہاں نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو آپ ﷺ نے کبھی بھی ’’نہیں ‘‘ نہ فرمایا کہ کسی نے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ میرے پاس نہیں ہے (سوائے کلمہ شریف میں لا پڑھنے کے)
یہ شعر اس حدیث کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی سائل کو ’’لا‘‘ بمعنی نہیں نہ فرمایا۔ صحابہ کرام ہر قسم کی حاجات کے لیے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں رجوع کرتے اور حضور علیہ السلام اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ان کی حاجات پوری کروا دیتے۔ طلب باراں ہو یا کوئی اور ضرورت ہو۔ کیونکہ اس وقت ابھی یہ عقیدہ ایجاد نہیں ہوا تھا کہ اللہ سب کی سنتا ہے لہٰذا نبی کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟
؂ دو عالم کا مدد گار آ گیا ہے 
امین آ گیا ، غمگسار آ گیا ہے                                   
غریبوں کی جاں کو ، یتیموں کے دل کو 
سکوں ہو گیا ہے، قرار آ گیا ہے                                    
( احسان دانش بحوالہ مدح رسول از راجہ رشید محمد ؛۳۳)

(شعر نمبر01) وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گُمان نقص جہاں نہیں



نعت شریف نمبر36
 (شعر نمبر01)
وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گُمان نقص جہاں نہیں
                        یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
مشکل الفاظ کے معنی
*نَقْص نون کے فتح کے ساتھ -- عیب، کمی،کھوٹ * خار -- کانٹا 
مفہوم و تشریح
آقائے دو جہاں ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کمال کا حسن عطا فرمایا ہے کہ آپ کے حسن میں عیب تو کیا عیب کا گمان بھی نہیں ہو سکتا، دنیا کا وہ کون سا پھول ہے جس کے ساتھ کانٹا نہ ہو مگر مدینے کا پھول ہر قسم کے کانٹے سے محفوظ اور ہر طرح کا کانٹا آپ ﷺ سے دور ہے اور ہر شمع کے ساتھ دھوئیں کا ہونا لازم ہے لیکن آپ ﷺ ایسی شمع رسالت ہیں کہ جہاں دھوئیں کا نام و نشاں تک نہیں ہے۔

اس شعر میں حضور علیہ السلام کے حسن کی رعنائیوں کو بیان کیا گیا ہے جس کو صحابہ کرام یوں بیان کرتی ہیں لم ار قبلہ ولا بعدہ مثلہ (مشکوۃ)آپﷺ جیسا حسین و جمیل نہ پہلے دیکھا نہ آپ ﷺ کے بعدکوئی دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے خود کئی مواقع پہ فرمایا لست مچلکم ۔لست کھتیتکم۔ ایکم مثلی۔ تم میں کون میری طرح کا ہو سکتا ہے اور جبریل امیں نے یوں عرض کیا ۔
افاق ھا دیدی ام
مہربتاں در ید ام
بسیار خوباں دیدہ ام
لیکن تو چیزے دیگری
مدینہ کی بچیوں نے چودھویں کا چاند کہا اور حضرت حسان بن ثابت نے یوں کہا۔
الصبح بدامن طلعنہ
واللیل دجیٰ من و فرتہ
فمحمد نا ھو سیدنا
فالوزلنا لا حسابتیہ
جس کا مفہوم اعلیٰ حضرت کے برادر اصغر نے یوں بیان کیا
ایسا تجھے خالق نے طرح داد بنایا
یوسف کو تیرا طالب دیدار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تجھے سرکار بنایا
للہ! کرم میرے بھی ویرانہء دل پر
صحرا کو تیرے حسن نے گلزار بنایا
(ذوق نعت)
اورقطب عالم تاجدار گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمۃ نے مزید آسان کر دیا۔
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
مولانا بشیر صاحب سلطان الواعظین، اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
وہی ہے تمہاری تصویر بناتا ہے ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے (پ۳ع۹)
یعنی وہ ارحم میں جس طرح خود چاہیے تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔ چناچہ اس نے کسی کو خوبصورت بنایا کسی کو ایسا نہ بنایا۔ کوئی پستہ قد ہے تو کوئی دراز قد۔ کسی کا رنگ گورا ہے تو کسی کا کالا ۔ کوئی اندھا ہے یا کانا، کوئی گونگا ہے تو کوئی بہرہ خدا جیسے چاہیے جیسا بنائے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اس نے جس کو جیسا بنایا ٹھیک بنایا۔
یہ تو ہے عام مخلوق کے لیے مگر اب آئیے اس کے محبوب حضور سید المرسلین ﷺ کی طرف اور دیکھیئے اللہ نے اپنے محبوب ﷺ کو کیسے بنایا؟ کیا اُسی عام دستور کے مطابو یعنی ’’کَیْفَ یَشَآء‘‘ یا اپنے محبوب کے لیے کوئی اور انداز اختیار فرمایا؟اس کا جواب حضور ﷺ کے درباری شاعرحضرت حسان رضی اللہ عنہ دیتے ہیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کا حسن و جمال ملاخطہ کر کے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے یوں عرض کیا۔
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیٰ
وَاکْمَلُ مَنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّاًمِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآء
یعنی یارسول اللہ!ﷺ آپ سے زیادہ حسین و جمیل میری آنکھ نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اور آقاﷺ دیکھتا بھی کیسے جب کہ آپﷺ سے زیادہ حسین کسی مانں نے جنا ہی نہیں۔ میرے آقا!ﷺ آپ ہر عیب سے پاک پیدا فرمائے گئے ہیں۔ گویا آپ ﷺ اپنی مرضی کے مطابق جیسا آپﷺ نے خود چاہا ویسا ہی خدا نے آپ کو بنا دیا۔
یہ حقیقت حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ عوام کے لیے ہے کہ جیسے خدا چاہیے انہیں بنا دے۔ حضور ﷺ کے لیے یہ بات نہیں۔ بلکہ اللہ رب العزت نے جب محبوب ﷺکو پیدا فرمایا تو محبوب کو محبوب کی مرضی کے مطابق بنایا۔محبوب ﷺ سے پوچھ کر بنایا، جیسے محبوب ﷺ نے چاہا ویسے ہی محبوب بنایا اور چونکہ محبوب یہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس میں کوئی عیب ہو ۔اس لیے حضور ﷺ جب اپنے چاہنے کے مطابق پیدا کیے گئے ہیں تو لازماً آپ ﷺ ہر عیب سے پاک پیدا فرمائے گئے ہیں۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے اس ایمان افروز بیان کے پیش نظر ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ ہمارے حضور ﷺ جو نحبوب خدا ہیں ۔ ہر عیب و نقص سے پاک و مبرا ہیں۔ بے عیب خالق نے اپنے محبوب کو بھی بے عیب بنایا ہے۔